عمران خان کے غبارے میں بھری  ہوا اور نواز شریف کی عدم موجودگی


 اگر بیوقوفی یا حماقت کی کوئی حد ہوتی ہے تو اسے ہمارے وطن عزیز کے کرتاوں دھرتاوں نے کب کا عبور کر لیا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے جاری اقتدار پر قبضے کی کشمش اور اس لڑائی میں کہیں نظر آتے ادارے اور کہیں نظر نہ آنے والے اداروں کی شرکت نے دنیا بھر میں وطن عزیز کا تماشہ بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی یے۔ عحیب و غریب الف لیلوی کرپشن کی داستانیں اور پھر اس پر افسانوی قسم کے عدالتی فیصلے، ”محکمہ زراعت“ کی جانب سے ایک سیاسی جماعت کو ٹارگٹ کرنا، عدلیہ نیب اور الیکشن کمیشن کا اچانک سے فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے خلاف ایک کے بعد ایک فیصلہ اور پھر ایک کے بعد ایک کاروائی۔ حتی کہ آر اوز کا ایک ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کے کاغذات پر اعتراضات لگا کر انہیں مسترد کرنا اور الیکش کمیشن کا مسلم لیگ نواز کے نام سے نواز کا نام حذف کرنے کی پیٹیشن کی سماعت۔

یہ تمام اقدام شاید ملکی میڈیا کو کنٹرول کر کے آزاد منش صحافیوں کو خوف اور دباؤ میں لا کر ایک طرح سے وطن عزیز میں جسٹیفائیڈ تو قرار دیے جا سکتے ہیں، لیکن بین الاقوامی دنیا اور انتخابی مبصرین کو یہ اقدام بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر کے جریدے اور مبصرین پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات رکھتے ہیں اور پری پول رگنگ کی رپورٹیں اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی زینت ہیں۔ جبکہ بین الاقوامی پریس اتاشی اپنی اپنی ایمبیسیوں کے ذریعے اپنے ممالک کو پاکستان میں دھاندلی زدہ انتخابات اور پری پول رگنگ کے حوالے سے مراسلات بھیج چکے ہیں یعنی انتخابات سے قبل ہی ان کی ساکھ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔

محترم چیف جسٹس ثاقب نثار نے جس انداز سے رہی سہی کثر پوری کرتے ہوئے ایک طرح سے شیخ رشید کی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کیا ہے اس کے بعد شاید کوئی احمق ہی ہو گا جو انتخابات کے غیر جانبدارانہ ہونے کی بات کرتا پایا جائے۔ عدلیہ، نیب اور الیکشن کمیشن کے اداروں کو متنازعہ بنانے کے بعد اور سیاسی عمل میں ”محکمہ زراعت“ والوں کی کھلم کھلا مداخلت اور سارا زور لگانے کے بعد بھی اگر کسی سیاسی جماعت کے حصے بخرے نہ کئیے جا سکیں تو آخری حربہ اس پر پابندی لگانا ہی بچتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کو مسلم لیگ نواز کے نام سے نواز شریف کا نام ہٹا دیا جائے اور من پسند انتخابی نتائج کو جبری طور پر حاصل بھی کر لیا جائے لیکن اس کے باوجود بھی محترم عمران خان کو نہ تو سیاسی طاقت مل پائے گی اور نہ ہی ”فرشتوں“ کی مرہون منت حکومت زیادہ عرصہ چل پائے گی۔

عمران خان کی جماعت اس وقت ماضی کی مسلم لیگ قاف جیسی ہے جس کے غبارے میں اس وقت کے آمر پرویز مشرف نے ہوا بھری تھی۔ مشرف کے اقتدار کا سورج غروب ہوتے ہی مسلم لیگ قاف کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔ تحریک انصاف کے غبارے میں بھری جانے والی ہوا بھی جلد ہی یا تو خود نکل جائے گی یا پھر نکال دی جائے گی۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نواز کو مسلم لیگ قاف کی مانند ختم کر دینا یا الطاف حسین کی متحدہ قومی مومنٹ کی مانند پابندی لگا دینے سے بھی اس جماعت کو سیاسی میدان سے نکال باہر پھینکنا تقریبا ناممکن ہے۔ جس کی وجہ اس جماعت کی گراس روٹ لیول پر مضبوط بنیادوں کا موجود ہونا اور پنجاب میں اس کا مقبول بیانیہ ہے۔

نواز شریف چونکہ خود کسی زمانے میں مقتدر قوتوں کے ساتھ رہے ہیں اس لئے وہ اس کھیل کے ہر داؤ ہیچ سے واقف ہیں۔ اس لئے جو قوتیں یہ گمان کر رہی ہیں کہ اس جماعت کو سیاسی بساط سے بغیر کوئی نقصان اٹھائے باہر کر دیا جائے گا وہ شاید لانگ ٹرم میں ہونے والے نقصانات اور درپیش خطروں سے واقف نہیں ہیں۔ نگران حکومت کے آتے ہی ڈالر ایک سو اکیس روپے تک جا پہنچا ہے جبکہ پٹرول ننانوے روپے پچاس پیسے پر پہنچ گیا ہے۔ بجلی کی ہلکی پھلکی لوڈ شیڈنگ جاری ہے اور عنقریب پانی کا بحران ایک سنگین مسئلہ بننے جا رہا ہے۔ ایسے میں نواز شریف اور اس کی حکومت کی کرپشن کی من گھڑت اور فرضی پراپیگینڈے سے متاثر ہو کر پس پشت قوتوں کا چارہ بننے والا عوام کا ایک حصہ انگلیاں منہ میں ڈالے حیران و پریشان کھڑا ہے۔

یہ وہ طبقہ ہے جسے حب الوطنی، مذہب، اور عمران خان کے خود ساختہ کرشمے کا اثیر بنا کر یہ احساس دلوایا گیا تھا کہ نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کی حکومت کے جاتے ہی وطن عزیز میں دودھ شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی اور کرپشن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں رہے گا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ نواز شریف بھی جا چکا اور اس کی جماعت کی حکومت بھی جا چکی لیکن نہ تو دودھ والے نے دودھ میں پانی ملانا چھوڑا نہ ہی سرکاری منشیوں نے رشوت لینا چھوڑی۔ نہ تو ملک میں یومیہ کرپشن کے اعدادوشمار میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی بھارت اور افغانستان، پاکستان کے چرنوں کو ہاتھ لگانے آئے۔ ہاں جو چیز دکھائی دے رہی ہے وہ تمام الیٹیبکز یعنی لوٹوں کا تحریک انصاف میں شامل ہو کر کرپشن کے خلاف بھاشن دینا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہی سٹیٹس کو ہے جسے ایسٹیبلیشمنٹ برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اس بار اس اسٹیٹس کو کا چہرہ عمران خان کی شکل میں موجود ہے۔

شہباز شریف کو بیک اپ کے طور پر رکھا گیا ہے اور محترم شہباز شریف خود کو عمران خان سے زیادہ تابعدار اور فرمانبردار ثابت کرنے کی کوششوں میں دن رات ایک کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو بھی اب وطن واپسی کا جلد فیصلہ کرنا ہو گا کہ ایسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے کی جنگیں بیرون ملک قیام کر کے محض بیانات کے سہارے کبھی بھی نہیں جیتی جا سکتی ہیں۔ رہی بات ملکی صورتحال کی تو سایوں اور سرابوں کے تعاقب میں بھاگتی قوم کی قسمت میں سراب ہی ہوا کرتے ہیں۔ ایسے میں خوش آئند پیش رفت عام عوام کا وہ حصہ ہے جو منطقی سوچ سے آگاہی رکھتے ہوئے اب کسی بھی غیر متعلقہ قوت کی میدان سیاست میں مداخلت اور ریاستی امور کو پردے کے پیچھے سے چلائے جانے کے عمل کو قبولیت کی سند دینے سے انکاری ہے۔

یہ ایک ارتقائی سفر ہے اور بنا کسی قدغن اور تعصب کے فرسودہ سوچوں نظریات کو جھٹلانے والا طبقہ یقینا اس حبس زدہ موسم میں تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند ہے۔ یہ ٹیلیویژن سکرینیں پس پشت قوتوں سے گھبرا کر پراپیگینڈا پھیلا کر یونہی چمکتی دمکتی رہیں گی اور اخبارات بھی ان دیکھی طاقتوں کے ہاتھوں پر بیعت کرتے ہوئے صفحات کالے کرتے رہیں گے لیکن جس شعور اور ادراک کے باعث وطن عزیز کی اصل حکمران قوتوں کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ نہ تو کسی طاقت سے دبنے والا ہے اور نہ ہی کسی جبر کے سامنے جھکنے والا ہے۔ عام انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشانات، دکھائی نہ دینے والی قوتوں کے ہتھکنڈے، اور عدلیہ کا مقتدر قوتوں سے گٹھ جوڑ کا تاثر پیدا ہونا اسی شعور اور بیانیے کا مرہون منت ہے۔

کہتے ہیں کہ جو سوچ کی آزادی اور سپیس ایک دفعہ عوام حاصل کر لیتی ہے اس کو دوبارہ سلب کرنا بڑی سے بڑی قوتوں کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے۔ اب فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کو کرنا ہے کہ کیا وہ وطن واپس آ کر قید و بند کی صوبتوں کا سامنا کرتے ہوئے اس بیانیے کا علم تھامنے کو تیار ہیں یا نہیں ہیں؟ کیونکہ سیاسی اور نظریاتی محاذوں پر خلا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہنے پاتا اور کوئی نہ کوئی اور فرد اس خلا کو پر کر دیا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).