….شہبازشریف قومی حکومت کیلئے پرعزم مگر


شہباز شریف صاحب یہ پیغام دئیے چلے جارہے ہیں کہ ان کی جماعت کو جولائی 2018کے انتخابات میں سادہ اکثریت نصیب ہوبھی گئی تو وہ بیشتر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملاکر ایک ’’قومی حکومت‘‘ بنانے کو ترجیح دیں گے۔ عمران خان صاحب کا لیکن ایسا کوئی ارادہ نہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کو بھی ان کی جماعت کے ساتھ ’’نظریاتی اختلافات‘‘ یاد دلانے کی ضرورت محسوس ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ’’قومی حکومت‘‘ بنانے کو شاید مولانا فضل الرحمن جیسے کشادہ دل ہی شہباز صاحب کا ساتھ دینے کو تیار ہوں گے یا ایم کیو ایم کا وہ دھڑا جسے ’’بانی‘‘ کی قوت تحلیل ہونے کے بعد اب کسی اور سرپرست کی ضرورت ہے۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے پاکستان جیسے ممالک میں اصولی طورپر انتخابی مہم کے دوران صلح جوئی کی تمنا کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ تخت یا تختہ والا انداز اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے۔ شہباز صاحب مگر ’’خادم اعلیٰ‘‘ کے منصب پر فائزہوں تبھی روسٹرم پر مکے مارتے ہیں۔

جالبؔ کے شعر دہراتے اپنے سامنے قطار میں لگے مائیکروفونوں کی قطار کو ڈھادیتے ہیں۔سرکاری افسروں کے ساتھ بیٹھے ہوں تو اُنگلی لہراتے ہوئے کئی ایک کو OSDبناکر دیگر شرکاء کے دلوں میں خوف جاگزیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ منصب سے فارغ ہوجائیں تو ’’اکیلے نہ جانا‘‘ والا نغمہ گنگنانا شروع ہوجاتے ہیں۔

فلم ’’ارمان‘‘ میں اس گانے کے درحقیقت دوورژن ہیں۔ نجانے کیوں مجھے یہ محسوس ہوا کہ شہباز شریف کا ’’اکیلے نہ جانا‘‘ والا ورژن اس فلم کے اختتامی سین والا ہے۔ زیبا اس وقت تک ٹانگوں سے معذور ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ بغلوں میں بیساکھیاں لگائے کھڑی ہوکر یہ گانا گاتے ہوئے اپنے محبوب کو پکارتی ہے۔ محبوب وارفتگی کے عالم میں اس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اسے گلے لگاکر یک جان دوقالب ہوجاتا ہے۔زیبا کوبیساکھیوں کی ضرورت نہیں رہتی۔

ربّ کا ہزاربارشکر کہ وزارت اعلیٰ کے منصب سے فراغت کے بعد بھی شہباز صاحب فزیکل حوالوں سے کافی FITدکھائی دے رہے ہیں۔ خدا انہیں نظرِ بد سے بچائے۔فکری اور سیاسی اعتبار سے لیکن وہ بیساکھیوں کے محتاج نظر آرہے ہیں۔ ان کے بارے میں He Has Lost Itوالا تاثر گہرا ہوتا چلاجارہا ہے۔

چودھری نثار علی خان صاحب کی شہباز کیمپ کی جانب سے مسلسل نازبرداری بیساکھیوں کی تلاش ہی تھی۔

چودھری صاحب کی شفقت میسر نہ ہوپائی تو نواز شریف سے وابستہ پاکستان مسلم لیگ ان کے مقابلے میں راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے قمرالا سلام کو شیر کا نشان الاٹ کرنے پر مجبور ہوگئی۔
یہ نشان الاٹ ہوگیا تو ہمارے محتسب اعلیٰ جسٹس (ریٹائرڈ)جاوید اقبال کو یاد آگیا کہ قمرالا سلام تو پنجاب کو صاف پانی فراہم کرنے کے دعوے دار منصوبے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ٹکٹ ہولڈر گرفتار کرکے دو ہفتوں کے لئے تفتیشی سوالات کا سامنا کرنے کے لئے احتساب والوں کے سپرد کردئیے گئے ہیں۔

ان کی عدم موجودگی میں قمرالاسلام کے دو کم سن بچے اپنے والد کی انتخابی مہم چلارہے ہیں۔ شہباز صاحب کو ابھی تک یہ توفیق بھی نہیں ہوپائی کہ راولپنڈی پہنچ کر ان بچوں کے سرپردستِ شفقت رکھنے والا Photo Oppہی رچاپائیں۔

’’قومی حکومت‘‘ کی خواہش کو پرخلوص ثابت کرنے کے لئے شاید چودھری نثار علی خان صاحب کے انتخابی مخالف سے دوری ضروری ہے۔ گزرے جمعے کے دن مگر چکوال میں بھی بہت گہماگہمی رہی۔سردار غلام عباس سے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ واپس لے لیا۔

سردار ذوالفقار دلہہ نے حیران کن برق رفتاری سے مسلم لیگ (نون) کا صوبائی اسمبلی کے لئے ملا نواز لیگ کا ٹکٹ لوٹادیا اور تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ یا فتہ امیدوار بن گئے۔ چکوال شہر اور اس کے نواحی قصبات میں سارا دن یہ سوال گردش کرتا رہا کہ مسلم لیگ نون کو ووٹ دینے پر بضد افراد اب کس جانب سے دیکھیں۔

شہباز صاحب کو غالباََ چکوال پر حاوی فضا کی مگر خبر تک نہ ہوئی۔وگرنہ اپنی ذات سے منسوب سپیڈ کے ساتھ اچانک چکوال پہنچ کر اپنے کارکنوں کو دلاسہ دیتے نظر آتے۔

چودھری پرویز الٰہی کے پاس ان دنوں نظر بظاہر کھیلنے کو مناسب پتے موجود نہیں۔ وہ اپنے آبائی حلقے گجرات کے علاوہ چکوال کے نواحی تلہ گنگ سے قومی اسمبلی کی ایک نشست سے بھی کھڑے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے ان کے خلاف کسی شخص کو ٹکٹ نہیں دی۔

’’موروثی سیاست‘‘ کے دشمن عمران خان نے،جو نیا پاکستان بنانے کے جنون میں مبتلا ہونے کے دعوے دار ہیں،تلہ گنگ کو چودھری پرویز الٰہی کے لئے ’’خالی‘‘ کیوں رکھا۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں۔ تحریک انصاف کے اس ضمن میں احسان مند ہوتے ہوئے بھی پرویز الٰہی تلہ گنگ جاتے ہوئے سردار عباس کے ڈیرے پر رُکے۔ ان کی انا پر لگے زخم مندمل کرنے کی کوشش کی۔

شاید اس ضمن میں عمران خان صاحب سے بھی رابطہ کیا ہوگا۔ شہباز شریف کے پاس مگر چکوال کے ڈرامائی ماحول کو نیارُخ دینے کے لئے کوئی سکرپٹ موجود نہیں تھا۔

ہفتے کے دن پسرور میں زاہد حامد کی گاڑی پر پتھر اور ڈنڈے برسائے گئے ہیں۔ نواز حکومت کے اس وزیر قانون کو ختم نبوت کے قانون میں مبینہ ترمیم کی کوشش کا کسی دشمن نے نہیں شہباز صاحب نے اپنے بھائی کی موجودگی میں لاہور کے ایک مسلم لیگی اجتماع میں ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

علامہ خادم رضوی کو اس بیان کے بعد راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر دھرنا دینے کا جواز مل گیا۔ 22دنوں کا یہ دھرنا حکومتِ پاکستان نے ایک دستاویز شکست پر دستخط کے بعد ختم کروایا۔زاہد حامد کی قربانی دینا پڑی اور وفاقی وزیر کو استعفیٰ دینے پر شہباز صاحب نے قائل کیا۔ یہ سب ہونے کے بعد زاہد حامد کی گاڑی پر پھول برسنے کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ شہباز صاحب نے ’’قومی حکومت‘‘ کی خاطر اس واقعے کے بارے میں بھی نظر درگزر سے کام لیا ہے۔

کڑے وقت میں کسی سیاسی رہ نما کے لئے اپنی جماعت کا محافظ وسرپرست نظر آنا ضروری ہوجاتا ہے۔ شہباز صاحب اپنی جماعت کے کئی رہ نمائوں کے لئے برگد کا درخت ضرور ثابت ہوئے لیکن انہیں دھوپ سے بچانے والا سایہ کبھی فراہم نہ کرپائے۔ مسلم لیگ کے کئی امیدوار لہذا شیر کے نشان سے دست بردار ہوکر ’’آزاد‘‘ حیثیت میں آئندہ الیکشن لڑنے کو مجبور ہوگئے ہیں۔ شہباز صاحب ’’قومی حکومت‘‘ بنانے کے قابل ہوگئے تو ان کے ساتھ مل جائیں گے۔ وگرنہ ’’سفر ہے شرط مسافرنوازبہتیرے ‘‘۔

سیاسی مسافروں کو محفوظ ٹھکانہ میسر نہ کر پانے کی وجہ سے شہباز صاحب حواس باختہ نظر آرہے ہیں۔ بیساکھیوں والی زیبا۔ ’’اکیلے نہ جانے‘‘ کی فریاد۔’’وحید مراد‘‘ تک مگر ان کی آواز نہیں پہنچ پارہی۔ نور جہاں کا ’’خورے ماہی کتھے رہ گیا‘‘ یاد آگیا ۔ شہباز صاحب کو وہ گانا یاد ہے تو آئندہ چند روز میں کہیں گنگنادیں تاکہ سوشل میڈیا پر ان کا ایک اور Item Songوائرل ہوسکے۔ شہباز کی پرواز میں کوتاہی تو نظرآنا شروع ہوگئی   ہے’’شوبازی‘‘ کے امکانات اگرچہ ابھی تک ختم نہیں ہوئے۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).