نیلی بار از طاھرہ اقبال


چیخوف کہا کرتا تھا کہ میں قلم کا احترام کرتا ہوں اور ہمیشہ ڈرتا رہتا ہوں کہ کہیں مجھ سے قلم کی بے حرمتی نہ ہو جائے۔ لیکن میں اُن صاحب کے ڈر کے ساتھ ایک اور خوف اور وسوسہ بھی رکھتا ہوں کہ قلم کے ساتھ ساتھ محترمہ طاہرہ اقبال صاحبہ کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے۔ اس لئے پیشگی معذرت کے اس ناول کو پڑھنے کے بعد جو لکھنے کی سعی کر رہا ہوں اس کا ذمہ دار میں خود ہوں نہ کہ ان کے تخلیق کردہ کرداروں میں سے کوئی ایک۔

رائیٹر نے اس ناول کا آغاز بہت دھیمے اور خوبصورت انداز سے کیا۔ دیہات کے باسیوں کی شادی کے انتظام کو اس سادگی اور شائیستگی کے ساتھ بیان کیا کہ 80 کی دیہائی کے بعد آنے والی نسل کے لئے معلومات کا خزانہ کھول دیا ان تمام کرداروں کو اس جاندار انداز سے زندہ رکھا کہ موجودہ نسل کو۔ اُس ماحول، حالات، روایات اور حادثات سے روشناس کروایا کہ جن کے متعلق اگر انھیں علم بھی تھا تو بہت کم حد تک تھا۔ رحمتے، فضل بی بی، مقبولاں، ذیلدار صاحب، منصورہ، ست بھرائی، عبدالرحمان، ملک وڈا، ستو، بختاور، زارا، علی جواد المعروف علامہ محمد علی معاویہ، فوجی نصیر اور بابا کرم علی یہ اور ایسے بہت سے کردار دیہی اور شہری علاقوں میں مختلف روپ کے ساتھ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اِن کرداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ گفتگو اور وہ بھی ٹھیٹ علاقائی انداز میں اس ناول کی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ نیلی بار میں جہاں آزادی کے بعد آنے والوں کے مصائب بیان کیے گئے ہیں وہیں مقامی با اثر افراد کے حال اور مستقبل کے طریقہ واردات کو بہت دلیرانہ انداز میں قلمبند کیا گیا ہے۔

ست بھرائی کی ڈولی سے شروع ہونے والا قصہ اور مخصوص دیہی انداز میں خواتین کا دلہن کے حسن اور زیورات کی تعریف ہائے نی سوہنی تے سونکھڑی، نی راوی دا سرا، نی بار دا سنگھار۔ نی اے انعام کتھوں گھڑوایا نیں، نی تولے دا تے ہوسی، نی اے لونگ ڈاہڈا پیا سجدا اے، ہے نی پٹولے وانگ تے کڑی اے سجے کیوں نا۔

اور پھر چند لمحات بعد پیش آنے والا واقعہ جس میں برات لٹ جاتی ہے اور جہیز کے ساتھ ساتھ دلہن کا سب کچھ لوٹ لیا جاتا ہے، یہ منظر نامہ قاری کو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہے لیکن ابھی آگے ہمیں اشرف المخلوقات کے اور کارہائے نمایاں جاننا باقی ہیں۔ بڑی حویلیوں اور ہمارے آقاوں کے احوال کہ جن کو اُن کے کیے کی سزا قدرت دے تو رہی ہے لیکن وہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سیاستدانوں اور جاگیرداروں کا گٹھ جوڑ اور مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ، عوام کے حقوق کا سلب کیا جانا اور انھیں ان کے بنیادی اور پیدائشی حقوق سے محروم رکھنے کے تمام حیلے بہانے اور چالیں بہت عمدہ طریقے سے قلمبند کی گئیں ہیں جیسے ایک گدی نشین سیاستدان پیر صاحب فرماتے ہیں “دیکھیے عوام الناس میں اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ کسی معاملے کو سلیقے سے سنبھال سکیں۔ اس ہی لئے تو خدا نے طبقات بنائے جنت اور دوزخ کا تصّور اور کیا ہے یہیں جنت ہے، یہیں دوزخ ہے۔ یہیں زمینی خدا ہیں یہیں فرشتے اور رضوان ہیں۔ اور ایک جگہ اس طبقہ کا ذکر کہ جس کا حقیقی تعلق صرف اپنی عیاشی اور عیش پرستی پر ہوتا ہے ( یعنی کہ آج کی موم بتی مافیہ) اور نت نئے ہنگامے اُن کا وقت آسانی سے گزارنے کے لئے لازم ہیں” اشرافیہ کی اُن بوڑھی نمائندگان کے مابین آج ملٹی نیشنل کاروباروں، ملوں، فیکٹریوں، زمینوں، سیاست اور سیاسی خانوادوں کی جگہ منفرد مشاغل زیرِ بحث تھے۔ ڈالروں، پاونڈوں کی افراط لگثری گاڑیاں مہنگے بوتیکس یورپ، امریکہ اور دوبئی کے شاہانہ ہوٹل شاپنگ مالز اور مہنگے برانڈز، اٙپ ٹو ڈیٹ علم کا رُعب جیسے موضوعات اب گھس پٹ چکے تھے۔ اب کچھ انوکھا جھنجھوڑ دینے والا موضوع ہی ان شاہانہ اطوار خواتین کو متوجہ کر سکتا تھا، جو تھیں تو بہنیں بیٹیاں بیویاں لیکن دوسروں کی۔

مدارس کا احوال ہمیں اپنی دینی حالت زار پے نوحہ خوانی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ طاہرہ اقبال کا ہی خاصہ ہے کہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں اُس کا مشاہدہ اتنی باریک بینی سے کیا اور ان تمام مشاھدات کو کمال عمدگی سے ایک ناول کا روپ دیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ کسی مسئلے یا الجھن کو سمجھنا دانائی ہے اور اسے سمجھا دینا حکمت میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ یہ دونوں وصف ناول نگار میں موجود ہیں۔

میرے نزدیک اس ناول کو ادبی حوالے سے دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک زبان اور دوسرا ادیب۔
انسان کا سب سے تخلیقی کارنامہ زبان ہے، بولنا اور بات چیت کرنا انفرادی عادت بھی ہے اور معاشرتی و آفاقی عادت بھی۔ ہر زبان کسی مخصوص معاشرے کی اجتمائی زبان ہوتی ہے نہ کہہ کسی ایک فرد کی۔

زبانیں سماجی ضرورتوں کے باعث وجود میں آتی ہیں جب تک وہ زبان سماجی ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں وہ زندہ رہتی ہیں اور اس ناول میں جو معاشرتی زبان استعمال کی گئی ہے وہ ہمارے زبان و ادب کے مقتدر شخصیات اور لغت نویسوں کے لئے لمحہ فکر اور ایک موقع ہے کہ ان الفاظ کو آج کی لغت کا جز ضرور بنائیں۔
اِس ناول کی ایک خوبی اُس معاشرے کی اجتماعی زبان بھی ہے جسے طاہرہ اقبال کے اسلوبِ تحریر نے ایک جداگانہ حیثیت دی۔

ادیب کا ہر تخلیقی عمل سماجی عمل ہی ہوتا ہے، وہ جو مشاھدہ کرتا ہے اور اپنے اُس مشاھدے کو سماج کی معاشرتی ترازو پے تولنے کے بعد نہایت ایمانداری سے تحریری صورت دیتا ہے، انسان کو سماجی حیوان اسی بنا پر کہتے ہیں کہ دوسروں کے تعاون کے بغیر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا بقول سبط حسن مرحوم ادب ہم کو انسان تو انسان حیوانوں کے جذبات و احساسات، حرکات و نفسیات کا ادراک عطا کرتا ہے وہ ہمارے دکھوں اور خوشیوں، ہماری امنگوں اور خواہشوں ہماری نیکیوں اور بدیوں کی جھلکیاں دیکھاتا ہے۔ ہماری منافقتوں، ریاکاریوں اور عیاریوں کی قلعی کھولتا ہے۔

نیلی بار میں طاہرہ اقبال نے ہمیں ہمارے معاشرے کا اصل روپ دیکھانے کی پوری کوشیش کی ہے اور مجھے اپنے اس معاشرے کا بھیانک روپ دیکھنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا۔ یقین جانیے کہ یہ ناول محشر کدہ ہی دکھ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).