صوبہ بلوچستان کے انتخابات پر ایک نظر


بلوچستان کی قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے 16 ہیں۔ 2013 میں صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی نشستیں 14 تھیں جب کہ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ان کی تعداد بڑھا کر 16 کر دی گئی ہے۔ بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا آغاز اب کوئٹہ کے بجائے شیرانی سے ہوگا۔ بلوچستان کی کل آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ 34 ہزار 39 ہے۔ ہرحلقہ کی آبادی کا تناسب 7 لاکھ 71 ہزار 549 رکھا گیا ہے۔

بلوچستان میں حلقہ این اے 268 کی آبادی سب سے زیادہ دس لاکھ 83 ہزار افراد پر مشتمل ہے جب کہ سب سے کم آبادی والا حلقہ این اے 262 ہے جس کی آبادی تین لاکھ 86 ہزار پرمشتمل ہے۔ بلوچستان کے تین بڑے حلقے این اے 258، 259 اور 264 ہیں۔ ان حلقوں کو 5 اضلاع پر مشتمل کیا گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان کا سب سے چھوٹا حلقہ این اے 269 ہے۔

صوبہ بلوچستان کے مقامی افراد کو ریاست سے بہت سے شکوے ہیں جن میں ایک نظر اندازی کا بھی ہے۔ اس صوبے کا بیشتر حصہ اس سہولت سے محروم ہے۔ وہ صوبہ جو کوئلے کی ساٹھ فیصد ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ نوے فیصد اونیکس پتھر کی پیداوار دیتا ہے، جہاں لاکھوں ٹن تانبا زمین میں دبا ہوا ہے مگر حکمران اس جانب توجہ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان غذا، تعلیم، صحت کی پسماندگی سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے سلسلوں میں بھی مکمل طور پر پسماندگی کا شکار ہے۔

جب بھی بلوچ قوم پرستوں نے وفاقی پارلیمانی جمہوریت کے تحت پاکستانی سیاست کا حصہ بننا چاہا، انیس سو ساٹھ سے انیس سو ستانوے تک، انہیں گرفتار کیا گیا اور ان کی صوبائی حکومتوں کو برخاست کیا گیا۔

قوم پرستوں کا الزام یہ ہے کہ فوج کے انٹیلی جنس ادارے بلوچ سرداروں اور قوم پرستوں کی حب الوطنی پر شک کرتے ہیں اور ان کے خلاف چھوٹے سرداروں کو پیسہ دے کر انہیں بلوچوں کا رہنما بنانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی بات بڑے بلوچ سرداروں نواب خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگتی کی اسلام آباد کے خلاف لڑائی کی بنیاد بتائی جاتی ہے۔ یہ تینوں بلوچ سردار الگ الگ ہوچکے ہیں اور ان کی الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں۔ بگتی کی جماعت جمہوری وطن پارٹی اور مینگل کی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ ہے۔

بہتری کی امید:

انیس سو چھیالیس تک کوئٹہ میں صرف ایک سکول تھا اور ایک کالج۔ آج اس شہر میں تین یونیورسٹیاں ہیں، ایک بلوچستان یونیورسٹی، ایک آئی ٹی یونیورسٹی اور اور اب ایک میڈیکل یونیورسٹی بن رہی ہے۔

پورے ریاستی بلوچستان میں صرف دو سکول تھے جبکہ اب پورے ریاستی بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں سکول ہیں اور تقریبا پچیس انٹر اور ڈگری کالجز ہیں۔ خضدار میں انجینئرنگ یونیورسٹی ہے، زرعی کالج موجود ہے اور بیلا میں زرعی یونیورسٹی بن رہی ہے۔

انیس سو ستر تک بلوچستان کا صوبائی بجٹ نہیں بنتا تھا بلکہ قلات ڈویژن کے نام سے اس کا بجٹ تیار کیا جاتا تھا۔ ریاستی بلوچستان میں جو ترقی ہوئی وہ پاکستان بننے کے بعد ہوئی گو اس تیز رفتار سے نہیں ہوئی جیسا ہونی چاہئے تھی۔ پاکستان بننے کے بعد بلوچستان کو اتنے کم فنڈز دیے گئے کہ ان کا بیشتر حصہ انتظامیہ اور پولیس پر خرچ ہوجاتا تھا اور ترقیاتی کاموں کے لیے بہت کم پیسے بچتے تھے۔

بلوچستان کا بہت بڑا ساحلی علاقہ ہے جہاں کسی بندرگاہ کو ترقی نہیں دی گئی اور اب اٹھاون سال بعد یہاں گوادر کو ترقی دی جارہی ہے۔ بلوچستان میں جب ترقیاتی کام شروع ہوئے اور تعلیمی ادارے بننے لگے تو یہاں تو تعلیم یافتہ اور اہل سٹاف انہیں چلانے کے لیے موجود نہیں تھا اس لیے پاکستان کے دوسرے علاقوں سے ان اداروں کو چلانے کے لیے لوگ یہاں آئے۔ یہ بلوچستان کی مجبوری تھی۔

خوشحال بلوچستان:

قدرتی وسائل سے مالامال جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کی صوبائی حکومت کے دور میں بھی پرامن بلوچستان کی پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کے تحت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بلوچستان کے بیرون ملک مقیم بلوچ راہنماؤں سے مذاکرات کیے اور انہیں واپس بلوچستان آنے اور پرامن سیاست میں حصہ لینے کے لئے قائل کرنے کی کو شش کی، جب کہ صوبے کی سطح ریاست کی عملداری  تسلیم کرنے والے بلوچ عسکر یت پسند کمانڈروں کو عام معافی کے ساتھ پندرہ لاکھ روپے دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس پالیسی کے تحت تقر یباً ایک ہزار سے زائد کمانڈروں کو سر ینڈر کرایا گیا اور رقوم بھی دی گئیں، تاہم صوبے میں امن قائم کرنے کی کوشش آج بھی جاری ہیں۔ یہ پروگرام وفاقی و صوبائی حکومت اور پاک فوج کے مکمل تعاون سے جاری ہے۔

بلوچستان کے جنوبی اور مغربی اضلاع میں سے ضلع آواران میں حالات خراب چلے آ رہے ہیں۔ یہ ضلع کالعدم بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ کا آبائی علاقہ ہے اور اس تنظیم کے کارکن تربت آواران اور گوادر میں کافی سر گرم عمل ہیں۔ پاکستان آرمی بلوچ بھائیوں کو امن دلانے میں کوشاں ہے۔ جس کی واضح مثال 17 مئی 2018 کو پیش انے والا اندوہناک واقعہ ہے۔ بلوچستان کے علاقے کلی الماس میں سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران دہشت گردوں سے مقابلے ہوا۔ جس میں ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل سہیل عابد شہید ہوگئے تھے۔ تاہم انہوں نے ہزارہ کمیونٹی کے قاتل بادینی کو واصل جہنم کیا تھا۔

دسمبر 2015 میں نواب ثنا اللہ زہری نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور اس عہدے پر آج نو جنوری 2018 تک فائز رہے۔ رواں سال جنوری میں سابق وزیراعلی بلوچستان کے خلاف صوبائی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔ جس کے تحت ان کہ فوری مستعفی ہونا پڑا۔

نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی شکل میں اچانک یہ بحران کیوں پیدا ہوا۔ حزب اختلاف کی بجائے خود ان کی اپنی پارٹی ن لیگ اور ق لیگ کے اراکین اس میں کیوں پیش پیش رہے۔ اس کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔

ثنا اللہ زہری کے مخالفین اس کا ذمہ دار خود ان کو ٹھہراتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے دور میں سب سے زیادہ اہمیت مخلوط حکومت میں شامل دوسری بڑی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دی۔

کابینہ سے مستعفی ہونے والے ن لیگ کے رکن پرنس احمد علی کہتے ہیں کہ پشتونخوا میپ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل حل ہوتے گئے جبکہ ن لیگ کے اراکین کے حلقوں کے مسائل بڑھتے گئے۔

خیال رہے کہ بلوچستان میں محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے علاوہ بعض دیگر اہم محکمے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پاس ہیں۔

منحرف اراکین کے مطابق حکومت سے سیاسی حوالے سے سب سے زیادہ فوائد پشتونخوا میپ نے اٹھائے اور ترقیاتی منصوبوں کا ایک بڑا حصہ اپنی پارٹی کے اراکین کے حلقوں میں منتقل کیا۔

ان کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی نے 13 جنوری 2018 کو صوبے کے تیسرے وزیراعلی کی صورت میں حلف اٹھایا۔

انتخاب کے وقت صوبائی اسسمبلی بلوچستان نے انہیں 544 وٹ دے کر منتخب کیا۔ یاد رہے پاکستان کی تاریخ میں کسی کامیاب امیدوارکو ملنے والے یہ سب سے کم ووٹ ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں رواں سال 25 جولائی کو عام انتخابات ہوں گے۔ یہ انتخابات مردم شماری 2017 کے حوالے سے نئی حلقہ بندیوں کے تحت کیے جائیں گے۔ صوبہ بلوچستان کی حلقہ بندی کچھ یوں ہے۔

صوبہ بلوچستان نیشنل اور صوبائی اسمبلی کے حلقے

صوبائی حلقے

نیشنل اسمبلی کے حلقے

نمبرشمار

(اے) ضلع قلعہ سیف اللہ

(بی) ضلع ژوب،
(سی) ضلع شیرانی

این اے 257

ضلع قلعہ سیف اللہ

01

(اے) ضلع لولارائی،
(بی) ضلع موسی خیل،
(سی) ضلع زیارت،
(ڈی) ضلع دکی،
(ای) ضلع ہرنائی

این اے258

لولارائی

02

(اے) ضلع ڈیرہ بگٹی،
(بی) ضلع کوہلو،
(سی) ضلع بارکھان،
(ڈی) ضلع سبی
(ای) ضلع لہڑی

این۔ اے 259

ڈیرہ بگٹی

03

(اے) ضلع نصیر آباد،
(بی) ضلع کچھی،
(سی) ضلع جھل مگسی

این۔ اے 260

نصیر آباد

04

(اے) ضلع جعفر آباد
(بی) ضلع صحبت پور

این۔ اے261

جعفر آباد

05

ضلع پشین

این۔ اے262

پشین

06

ضلع قلعہ عبداللہ

این۔ اے 263

قلعہ عبداللہ

07

(اے) تحصیل کچلاک
(بی) تحصیل صدر (ماسوائے سرکل 2 اور درانی 33)
(سی) تحصیل پنجبائی
(ڈی) پٹوار سرکل شادینزئی
(ای) ضلع قانون حلقہ سٹی 2

این۔ اے

264

کوئٹہ 1

08

کوئٹہ 2

این۔ اے265

کوئٹہ 2

09

کوئٹہ 3

این۔ اے266

کوئٹہ 3

10

(اے) ضلع مستونگ
(بی) ضلع قلات
(سی) ضلع شہید سکندرآباد

این اے 267

مستونگ

11

(اے) ضلع چاغی
(بی) ضلع نوشکی
(سی) ضلع خاران

این۔ اے 268

چاغی

12

ضلع خضدار

این۔ اے269

خضدار

13

(اے) ضلع پنجگور
(بی) واشک

(سی) آواران

این۔ اے270

آوران

14

ضلع کیچ

این۔ اے271

کیچ

15

(اے) ضلع لسبیلہ
(بی) ضلع گودار

این۔ اے272

لسبیلہ

16

خیال رہے کہ اس سے قبل (عام انتخابات 2013 میں) صوبہ بلوچستان کے قومی اسمبلی کے حلقے 14 تھے جبکہ اب یہ 16 پر مشتمل کردیئے گئے ہیں۔ صوبائی نشیتں 51 ہیں۔

ماہرین کے مطابق ملک بھر میں سب سے کم ووٹرز بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں 39 ہزار 787 ہیں، بلوچستان میں سب سے زیادہ ووٹرز کوئٹہ میں 6 لاکھ 83 ہزار 957 ہیں۔ علاوہ ازاں ماہرین کی مزید رائے کے مطابق صوبہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کے تحت اہم مقابلہ اس ترتیب کے تحت ہوں گے۔

این اے 257

ضلع قلعہ سیف اللہ

مولانا عبدالوسیع (ایم، ایم، اے)، اللہ نور (پی، کے، ایم، پی) اور مولوی عبدالروف کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے 258

لولارائی

سردار یعقوب خان ناصر (پی، ایم، ایل، این)، سرداراسرارترین (بلوچستان عوامی پارٹی)، کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے 259

ڈیرہ بگٹی

میر دوستین خان ڈومکی (بلوچستان عوامی پارٹی) اور نواب زادہ شاہزین بگٹی (جمہوری وطن پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے 260

نصیرآباد

سردار خان رند (تحریک انصاف) اور خالد خان مگسی ’(بلوچستان عوامی پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے 262

محمد عیسی روشن (پختونخواہ ملی عوامی پارٹی)، مولوی کمال الدین (ایم، ایم، اے) اور گوہر اعجاز کاکڑ (بلوچستان عوامی پارٹی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے 263

قلعہ عبداللہ

محمود خان اچکزئی ( پختونخواہ ملی عوامی پارٹی)، مولانا صلاح الدین ایوبی (ایم، ایم، اے) اور اصغر خان اچکزئی (اے، این، پی) کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔

این اے

269

خضدار

میں دو سابق وزیراعلی کے درمیان اہم مقابلہ ہوگا۔ سردار اختر مینگل (بلوچستان نیشنل پارٹی) اور نواب ثنا اللہ زہری (مسلم لیگ نون) کے امیدوار ہوں گے۔

این اے 272

لسبیلہ، گودار میں دو سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے درمیان ہونے جا رہا ہے۔ جام کمال خان (سربراہ بلوچستان عوامی پارٹی) اور سردار اختر مینگل ( سربراہ بلوچستان نیشنل پارٹی) کے مابین اہم معرکہ ہوگا۔ دوسری جانب محمد اسلم بھوتانی آزاد امیدوار ہیں۔

جبکہ صوبائی حلقوں میں

پی، بی 10

ڈیرہ بگٹی میں

سرفراز بگٹی (بلوچستان عوامی پارٹی) کا مقابلہ نوابزاداہ گہرام بگٹی (جمہوری وطن پارٹی) کے درمیان ہوگا۔

پی، بی 23 قلعہ عبداللہ میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان اہم مقابلہ ہونے والا ہے۔ واضح رہے ڈاکٹر حمید خان اچکزئی جن کا تعلق پختونخواہ ملی عوامی پارٹی سے ہے جبکہ وہ محمود خان اچکزئی کے سگے بھائی بھی ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی سے کپٹین (ر) عبدالخالق اچکزئی ہیں۔

پی، بی 35 مستونگ سے سابق وزیراعلی اسلم رئیسانی آزاد حیثیت سے اپنے سگے بھائی سراج خان رئیسانی سے مدمقابل ہیں جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں سیاست میں خاندانی وابستگی

این اے 258 سے سردار یعقوب ناصر جن کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ نون سے ہے۔ ان کے بھانجے سردار یحیی ناصر پی، بی 5 سے متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جبکہ ان کے بھتجے پی، بی 5 سردار در محمد ناصر بلوچستان عوامی پارٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).