کیا ”زن مرید“ ہونا کوئی عیب ہے؟


اگر میں روز شام کو کام سے آ کر یا کسی چھٹی والے دن اپنی بیوی کے پاؤں دباؤں، اس کے سر پر مالش کروں، سچی محبت کی نیت سے یا پھر اس خیال سےکہ وہ سارا دن گھر رہ کر بے شمار کام کرتی ہے، فیملی میں سب کا خیال رکھتی ہے، یا کہ وہ بھی جاب کرتی اور اس کے ساتھ ساتھ گھر بھار پر بھی پوری توجہ دیتی ہے سو وہ بھی تھک جاتی ہے اس کا بھی من کرتا ہے کہ اس کی تھکی ٹانگوں و ہاتھوں کو دبایا جائے، سر پر تیل لگے نرم ہاتھوں سے مالش کی جائے۔ تو پھر مجھ جیسے شوہر کا ایسا کرنا غلط ہے؟ اتنا برا ہے کہ کوئی دیکھے تو فوری زن مرید کا خطاب دے؟

یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اپنے بڑوں کو ایسا کرتے نہیں دیکھا یا بہت کم نظر آیا کہ کسی نے اپنی بیوی کے جائز محبتانا نخرے اٹھائے ہوں ورنہ طبیعت میں سخت مزاجی ہی دیکھی، سب کے سامنے شرارتیں کرنے یا ہنسنے کو عیب ہی سمجھا۔ تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ان کا ایسا رویہ رکھنا اچھا تھا؟ بیوی کو اتنی حد میں رکھنا کہ ایسا سب کرنا گناہ لگے؟ نہیں جناب۔ آپ کا نظریہ آپ کو مبارک ہو۔ اگر پہلوں کو اور آج کل کے ایسے پسماندہ ذہنوں کو لگتا کہ بیوی کو صرف اچھے کپڑے، کھانے، زیور وغیرہ ہی کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ، سب کے سامنے پیار سے بات کرنا، ہنسنا، کھیلنا بری باتیں ہیں تو اس سوچ کو بہت پہلے ہی بدل لینا چاہیے تھا صاحب کہ ”زمانے کے انداز بدلے گئے“۔

مجھے ایک بات کا بھرپور یقین ہے کہ ایک بیوی بھرپور محبت مانگتی ہے۔ صرف خاص لمحات کے علاوہ بھی وہ سراہے جانے والا لمس چاہتی ہے۔ آپ کی قربت کا احساس صرف بند کمرے میں ہی نہیں بلکہ سب کے سامنے چاہتی ہے تاکہ وہ آپ کے ساتھ تعلق پر فخر کر سکے۔ وہ چاہتی ہے کہ آپ سب کے سامنے اس کے ساتھ کھلکھلا کر ہنسیں، شرارتیں کریں، اس کا سر دبائیں، پاؤں دبائیں۔ اس کا ہرگز مطلب اپنے نیچے لگا کر رکھنا نہیں ہوتا، بس محبت کی اس سرشاری کو محسوس کرنا ہوتا ہے، جو اس کے وجود میں بھری ہوتی ہے۔

ہماری شادی چاہے اپنی ذاتی پسند سے ہو یا فیملی کی پسند کی، میاں بیوی کا رشتہ آخر کار محبت میں بندھ ہی جاتا ہے۔ جو پھر اظہار مانگتا ہے، سراہا جانا چاہتا ہے، جس میں کسی وقت کی قید نہ ہو، کسی کے سامنے ہونے کا ڈر نہ ہو۔ میں اگر بیوی ساتھ مل کر سبزی بنواؤں، کپڑے دھلواؤں، بچوں کو فیڈر بنا کر دوں یا بیوی کے آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھپن چھپائی کھیلوں، اس کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاؤں، یا اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں، پانی پلاؤں، اس کے سر پر کنگھی کروں تو خدارا سمجھیے کہ میرا ایسا کرنا زن مریدی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہے بھی تو ٹھیک ہے سر، پھر ایسا ہی سہی، آپ کی مرضی جو آپ سوچیں اور سمجھیں۔

تو صاحبو، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ میں اپنی بیوی کے لیے فخر بنوں اس کا مان بنوں کہ اس کا شوہر اتنا پیار کرتا ہے کہ کسی کی پروا نہیں کرتا۔ میں جب سب کے سامنے اپنی والدہ یا بہنوں کے لیے محبانہ کلام کر سکتا ان کو ساتھ بیٹھا کر، لپٹا کر، لاڈ سے چومتے ہوئے یہ کہہ سکتا کہ آپ مجھے بہت عزیز و پیاری ہو، تو ٹھیک اسی طرح میں سب کے سامنے اپنی منکوحہ، شرعی بیوی کے سر پر مالش کرتے، ذرا دیر کو رکتے، اس کی پیشانی پر بوسہ دینے اور یہ کہنے کو بالکل عار نہیں سمجھتا کہ تم میری خوبصورت و پیاری بیوی ہو۔ آئی لو یو جان۔ ۔ ۔ یقین مانیں نہ ہی یہ کوئی بے حیائی ہے نہ ہی زن مریدی۔ ۔ ۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

اور اگر ہاں آپ کو لگتا ہے کہ میں زیادہ ہی فلمی ہو گیا ہوں تو بھی کیا فرق پڑتا، یہی سب ہی آج کل کے ڈراموں، فلموں، گانوں میں دکھایا جا رہا، افسانوں و کہانیوں میں لکھا جا رہا۔ ۔ ۔ تو ان سب کا مجھ پر یا بیوی کے خیالات و جذبات پر اثر نہ ہو؟ کیا سب واقعی غلط ہے؟ کیا سب حقیقت سے دور ہے؟ شاید آپ کا جواب ناں ہی ہو مگر زن مرید کا لقب سننا آپ کو گوارا نہیں کرتا اس لیے چپ ہی بھلی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).