نگرانیات یوسفی کے مرزا ابھی زندہ ہیں


ہمارے دیرینہ دوست جناب مرزا وزیر آبادوی جن کو نگرانی کا بس اتنا ہی تجربہ ہے کہ اولین لڑکپن میں عقد سے لے کر اس بڑھاپے تک اہلیہ کی زیر ِ نگرانی رہے ہیں پچھلے چند ہفتے گھبرائے ہوئے اُکھڑے ہوئے اور چھپتے چھپاتے نظر آئے۔ ان کو وہم ہو گیا تھا کہ کچھ لوگ صبح شام رات دن اُن کا پیچھا کر رہے ہیں اور اس پُر اسرار جاسوسی کا مقصد اُن کو کسی صوبے کے وزیر اعلی کے منصب نگرانی کے زُمرے میں دھر لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

پوچھا آپ نے اس سے پہلے کوئی نگرانی کی ہے جو آپ کے اس خدشۂِ دور دراز کی بنیاد بن گئی ہے؟ ہماری کم علمی پہ خنداں ہوئے اور فرمانے لگے میاں یہی تو وہ وجہ ہے جو ہمیں اس کام کے لئے بیگار میں پکڑے جانے کا خوف ستا رہا ہے کیونکہ مقتدر سیاسی جماعتوں کے زُعما کو ایسے ہی نابغہِ روزگار افراد کی تلاش ہے کہ جن سے کچھ کیے جانے کا اندیشہ نہ ہو۔ عرض کیا کہ آپ نے اس ناحق پریشانی کا تزکرہ اپنی اہلیہ سے کیا ہوتا کہ اچھی گھر والیاں رموز دافعِ بَلیاتِ خاونداں ہوتی ہیں۔ ایک ٹھنڈی آہ بھری اور گویا ہوئے کہ مجھے تو وہ جاسوسِ ازلی بھی اس سازش میں شریکِ کار نظر آتی ہے۔

عرض کی کہ یقیناً بیویاں اس بات پر نازاں ہوتی ہیں کہ اُن کے شوہرِ نامدار شوہرِ عہدیدار بھی ہوں اور یہ کہ فیس بُک پر باربار یہ بتایا گیا ہے کہ ہر کامیاب شوہر کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے اور ہر ناکام شوہر کے پیچھے دو عورتیں۔ فرمایا۔ ہر گز نہیں۔ بیویاں تو ازل سے اس ٹوہ میں رہتی ہیں کہ کہیں شوہر کی کسی نامعقول حرکت کا سُراغ لگا لیں اور پھر بھرپور طعنہ زنی کرتی رہیں تا آنکہ کوئی نئی لغزش دریافت ہو جائے یا یہ کہ کسی شاپنگ وغیرہ کا موقع فراہم کر دیا جائے۔

اُن کی اس بات پر ہمیں یاد آیا کہ ہم ایک تسلسل کے ساتھ اندرون خانہ اور بالخصوص بیگم کو دکھانے کی غرض سے دانستہ کوئی نہ کوئی نامعقول حرکت کر کے، ایک عرصہ سے انتہائی تواتر سے اہلیہ کو طعنہ زنی اور گوشمالی کا موقع فراہم کیے جارہے ہیں تا کہ گھر کے حالات مناسب ڈگر پر رہیں اور اہلیہ محترمہ کو ہماری خامیاں تلاش کرنے کے لئے غیروں، حاسدوں اور دشمنوں کی خدمات لینے کی حاجت نہ ہو۔

ہم نے اپنی اس کیفیت کا ذکر مرزا سے کیا تو وہ خوش ہوئے اور ہماری بلائیں لینے لگے۔ فرمانے لگے اچھا شوہر بننے کے لئے ضروری ہے کہ تابع داری اس درجے کی کرے کہ بیگم کو نگرانی کرنے یا نگران رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ پوچھا کہ کیا شوہر کو گھر میں نگرانی کرنے یا کوئی نگران رکھنے کا حق ہے۔ کانوں کو ہاتھ لگایا اور ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے گویا کہ ہم نے ابھی تک جو باتیں کی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں۔

کانوں کو ہاتھ لگانے کے عمل سے فراغت کے بعدجب مرزا کی سانس قدرے بحال ہوئی تو کہنے لگے کہ انسان خطا کا پتلا ہے مگر شوہر نہیں۔ ہماری گُزارش پر وضاحت فرمائی کہ شوہر خطا کا پُتلہ نہیں ہو سکتا اور خطا کا پُتلہ شوہر کے درجے پر فائز نہیں رہ سکتا۔ مذید فرمایا کہ صرف ایک خطائے عمد یا خطائے نِسیاں ہی شوہر کو مشکوک بنا دیتی ہے اور شوہرِ نامدار سے شوہرِ ناہنجار کا سفر پلک جھپکتے طے ہو جاتا ہے۔ فرمانے لگے کہ بیگم پر نگرانی کا سوچنا ہی کسی شوہر کو جاہل ثابت کرنے لئے کافی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے چند فیس بک مفکرین کی پوسٹیں وغیرہ بھی پیش کیں کہ جو رنگوں اور تصویروں سے مُزیّن تھیں اور جن میں نگرانی کی اس قسم کو مکروہ عمل قرار دیا گیا تھا۔

مرزا نے بتایا کہ نگران حکومت کی نامزدگیاں دراصل ایک دھوکہ ہے اور یہ مغربی معاشرے وغیرہ سے متاثر ایک تنظیم جس کے انگریزی نام کا ترجمہ ”در حالاتِ شوہراں“ کی ایک سازش ہے۔ ”در حالاتِ شوہراں“ شوہرات کے خفیہ اور بعض اوقات اعلانیہ معاملات کو بیویات تک پہنچانے کا کام ایک معقول فِیس کے عوض عرصہ دراز سے کر رہی ہے۔ تنظیم کی موجودہ کاوشوں کا اصل مقصود یہ ہے کہ ذیادہ سے ذیادہ شرفاء کو مختلف حیلوں بہانوں سے پہلے تو مختلف عہدوں کے لئے نامزد کرنے کی افواہ چھوڑی جائے تا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا اُن شرفاء کے تاریخ جغرافیہ کا پوسٹ مارٹم کر کے اُن کی موجودہ اہلیہ یا اہلیہ جات کے سامنے بھی رکھ دے اور مستقبل میں اہلیہ جات میں اضافے کی امید بھی ختم کر دے۔ مرزا نے چند ایسے شوہرات کے نام بھی بتائے کہ جن کی نامزدگی ان حضرات کی بیویوں نے ہی کی اور پھر اس کے نتیجے میں گھر میں اُن کی نگرانی مزید سخت ہو گئی۔
مرزا تو گفتگو کر کے روانہ ہو گئے مگر بعد ازاں پیش آنے والے اور درپیش آنے والے حالت سے ہمیں بھی گھر میں سخت نگرانی کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).