میرا شہر پیرس بن گیا تو میرا کیا بنے گا؟


حماقت کی حدوں کو چھو لینے والے غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمارے گھر کی کھیتی ہیں اور جوں جوں الیکشن کا سورج سوا نیزے پر آرہا ہے، اس فصل کا خاص پھل۔ میڈیا پر رائج آج کل کی زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری کاٹیج انڈسٹری ہیں۔ آئے دن کی بات ہے۔ اس لیے کانوں کو اب تک ان کا عادی ہوجانا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ آپ یہ کر سکتے ہیں ایک کان سے سُن کر دوسرے سے اُڑا دیں۔ جیسے گھوڑا اپنے اوپر بیٹھنے والی مکھّی کے لیے کان یا دُم ہلا دیتا ہے۔ بے قابو ہوکر کاٹ کھانے کو دوڑا نہیں پڑتا۔

ایسے بیانات کا اب تک عادی ہوجانا چاہئے تھا مگر نہ جانے کراچی والوں کی کون سی رگ دب گئی کہ یہاں شہباز شریف کے بیان میں ردعمل کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا، حالانکہ بے چارے نے اتنا ہی تو کہا تھا کہ وہ کراچی کو لاہور بنا دیں گے یا پیرس بنا دیں گے اور پان کھانے والوں کو نئی دنیا دکھا دیں گے، یعنی اسی قسم کی بلند آہنگ اور معنی سے عاری خطابت جو ہمارے اہل سیاست کا وطیرہ رہی ہے، اس میں اب اتنا بُرا ماننے کی کیا بات ہے؟

کراچی سے زیادہ بُرا تو جاپان والوں کو ماننا چاہیئے تھا کہ ان کے ملک کے نام کا نصف آخر بار بار مطعون ٹہرایا جارہا ہے۔ میں خود تو عید کے عید پان کھاتا ہوں اس لیے کہ بچپن میں یہ بات کان میں پڑ گئی تھی کہ عید کے دن کُنجڑے قصائی بھی پان کھا لیا کرتے ہیں۔ (خُدا معلوم میاں صاحب کا عید کے دن کیا شغل ہوتا ہو گا؟) مگر پان کوئی ہر بُرائی کی جڑ تو نہیں کہ اس کے نام کے ساتھ جا بھی لگا کر رُخصت کر دیا جائے۔ خواجہ حسن نظامی نے بہت پہلے اس ملک کے لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان کے جذبات کو ٹھیس نہ لگ جائے (اس وقت تک پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا) اس لیے اس ملک کے باشندے نام بدل کر آپان رکھ لیں۔

Karachi in 1948

خواجہ حسن نظامی مرحوم صاحب حال بزرگ تھے۔ ان کا مشورہ نہایت صائب ہے۔ لیکن میرے دل میں ایک وسوسا سر اٹھا رہا ہے کہ پان پر یہ حملہ کہیں چین کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے سی پیک کے دم بدم رنگ بدلتے پروگرام کا حصّہ تو نہیں؟

وہ جو کراچی کے ہر پان والے کی دکان کے آگے ایک بدرنگ سا کپڑا ٹنگا رہتا ہے جس سے پان کھانے والے حضرات اپنے پان آلودہ ہاتھ اور بعض لوگ بانچھوں سے بہنے والی پیک بھی پونچھتے ہیں، یہاں تک کہ دھبّوں کے مارے یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کپڑے کا اصل رنگ کیا تھا، کچھ تھا بھی کہ نہیں، اس کپڑے کا سا حال کر دیا ہے میاں صاحب کا، کراچی والوں نے پیک پر پیک کی پچکاری پر پچکاری مار مار کے۔

اور میاں صاحب کے دفاع کرنے والوں کا حال اس پتلی سی سُتلی کا سا ہوگیا ہے جو پان کی دکان کے قریب ترین کھمبے پر بندھی جلتی رہتی ہے جس سے سگریٹ پینے والے اصحاب اپنے اپنے سگریٹ سُلگا سکتے ہیں۔ سُتلی پر آنچ آتی ہے نہ شعلہ بن کر بھڑکتی ہے۔ پرائی آگ میں چُپ چاپ جلتی رہتی ہے۔

پان اور شہر کے پرانے نام پر ایسا کیا غصّہ؟ اس شور میں اصل مسئلہ دب کر رہ گیا ہے جو مجھے اس وقت سے کھائے جا رہا ہے جب سے میں نے اس بیان کی گردان سُنی ہے۔

کوئی میری مشکل کا حل بھی بتائو۔ میری مشکل اس سے بڑھ کر ہے۔

DJ College

مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میاں صاحب نے مُنھ سیدھا میری طرف کر کے اپنی مخصوص خوداعتمادی سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باضابطہ دھمکایا ہے کہ کراچی تو پیرس بننے جا رہا ہے، پھر مخصوص لب ولہجے میں وہ ہندوستانی فلم کا ڈائلاگ ایک بار پُھر دہرایا ہے۔

’’تیرا کیا بنے گا کالیا؟‘‘

واقعی، مجھے ڈر یہی ہے۔ کراچی تو پیرس بننے جا رہا ہے اور میاں صاحب کے بقول بن کے رہے گا۔ اس بدلتی ہوئی صورت حال میں میرا کیا ہو گا، مجھے تو فرانسیسی نہیں آتی۔

مجھے ڈر ہے کہ میرا وہی حال ہوگا جو اب سے بہت عرصہ قبل پہلی مرتبہ پیرس جا کر ہوا تھا۔ سڑکوں کے نام سمجھ میں نہیں آتے تھے اس لیے لوگوں سے راستہ نہیں پوچھ سکتا تھا۔ میٹرو کا تیز رفتار اور پیچیدہ نظام سمجھ میں نہیں آیا تو زیادہ وقت پیدل چل کر گزارا۔ حلق میں کانٹے پڑنے لگے تو کسی کیفے میں پانی مانگا۔ تڑخ کر خاتون نے کہا، صرف فرانسیسی! دل ہی دل میں بخشو بی بلّی چوہا لنڈورا ہی بھلا کا ورد کرتا چلا آیا۔

اب کراچی میں میرا یہی حشر ہونے والا ہے۔ بس میں چڑھ گیا تو صدر کے بجائے ٹاور پہنچ جائوں گا کہ کس سے پوچھوں، کیا میرا اسٹاپ آگیا؟ ٹیکسی والے کو راستہ نہیں بتا سکوں گا کہ کہاں سے مُڑنا ہے اور سبزی والے سے بھائو تائو نہیں کر سکوں گا۔ سر درد کی گولی خریدنے کے بعد کیمسٹ سے یہ کیسے کہوں گا کہ اس نے بقایا پیسے کم دیے ہیں کوئی پولیس والا راہ چلتے روک لے تو کیسےسمجھاؤں گا کہ میرا شناختی کارڈ اور نکاح نامہ اردو میں ہے جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ یا پھر شاید بائیں سے دائیں۔ مگر دائیں بائیں کا کچھ چکر ہے۔

فرانسیسی کے حوالے سے میری زندگی ضائع شدہ مواقع کا مجموعہ ثابت ہو کر رہ گئی۔ کئی بار میں نے اس زبان کے سیکھنے کے لیے ہمّت باندھی اور ہر بار شروع کرتے کرتے رہ گیا۔ یہ بھی میری بُزدلی تھی۔ ایک بار جی کڑا کرکے، دانت بھینچ کے، ہدایات کے مطابق تلفّظ ادا کرنے کی کوشش کی مگر نتیجہ امید افزاء نہیں نکلا۔ ’’پارلے ودو فرانسے!‘‘ میں نے زور دے کر کہنا چاہا مگر اچھّے بھائی ہنسنے لگے۔ پاغلے ابے او فرانسے!‘‘ انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے فاختہ اُڑا دی۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ ہم گھر بیٹھے پیرس کے رہائشی ہو جائیں گے۔

باقی حصہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2