شطرنج بادشاہوں کا کھیل ہے


کہتے ہیں شطرنج بادشاہوں کا کھیل ہے۔ اسی لیے اس کے مہروں کے نام بھی ایسے ہیں جیسے کوئی سلطنت اور میدان جنگ۔ پیادے (سپاہی)، توپ، گورنر (ہاتھی)، گھوڑا، بادشاہ اور وزیر۔ شطرنج کے کھیل میں ہر مہرے کی اپنی اہمیت لیکن جو طاقت وزیر کے پاس ہے وہ کسی کے پاس بھی نہیں۔ انگلش میں وزیر کو کوئین یعنی رانی یا ملکہ بھی کہا جاتا ہے۔ واقعتاً وزیر شطرنج کی رانی کی ہوتا ہے۔ وزیر وہ واحد مہرہ ہوتا ہے جو ہر چال چل سکتا ہے سوائے گھوڑے کی چال کے۔ وزیر سب کچھ ہوتا ہے سوائے بادشاہ کے۔ سمجھئے وزیر شطرنج کا مدارالمہام ہے۔ شطرنج کا سارا مزہ سارا حسن وزیر کے دم سے۔ اسی لیے اس کھیل میں بادشاہ کے بعد کسی کی اہمیت ہے تو وزیر کی۔

اگر پاکستان کی سیاست کو شطرنج کی بساط سمجھا جائے تو تخت لاہور کو کم و بیش وزیر( رانی) والی اہمیت حاصل ہے۔ وزارت اعظمیٰ کے بعد ہر کوئی صوبائی تخت کا خواب آنکھوں میں سجاتا ہے۔ آمریت کے دور میں گورنر اور جمہوریت کے دور میں وزیر اعلیٰ تخت لاہور کا مالک اور شطرنج کا وزیر ہوتا ہے۔ تاریخ بتاتی جس کے پاس تگڑا وزیر تھا یعنی تخت لاہور تھا اس نے خم ٹھوک کر حکومت کی۔ تاوقتیکہ بساط الٹ نہیں دی گئی۔ اور جس کے پاس تخت لاہور نہیں تھا اس کو اسلام آباد میں چین و سکون میسر نہیں آیا۔

صدرایوب خان صاحب کے وقتوں میں تخت لاہور پہ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان صاحب براجمان تھے۔ جب تک ملک امیر خان صاحب والئی تخت لاہور رہے کراچی سے ڈھاکہ تک ایوب خان کا سکہ چلتا رہا۔ حالات کا ہیر پھیر ایوب خان اور ملک امیر خان میں ان بن ملک صاحب تخت لاہور چھوڑ گئے۔ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ جیسے ہی نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان صاحب منظر سے ہٹے سارا منظر ہی بدل گیا۔ امیر خان گیا تو ایوب خان کو بھی جانا ہی پڑا۔

بھٹو صاحب کے دور میں والئی تخت لاہور غلام مصطفیٰ کھر تھا۔ غلام مصطفیٰ کھر نے بھٹو صاحب کے لیے وہی کام کیا جو ملک امیر محمد خان نے ایوب خان نے کیا۔ غلام مصطفیٰ کھر نے ملک امیر محمد خان صاحب کا سٹائل انداز ضرور اپنایا لیکن دونوں کا تقابل کجی فہمی و بد ذوقی ہوگا۔ ضیا الحق صاحب کو تگڑا وزیر جنرل غلام جیلانی کی صورت میں میسر آیا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور حکومت میں میاں نوازشریف تخت لاہور پہ رونق افروز تھے جن کی وابستگی جونیجو صاحب کے ساتھ ہرگز نہ تھی۔ جونیجو صاحب کو اسی کارن جانا ہی پڑا۔

اس کے بعد محترمہ بینظیر کے اولین دور میں بھی والئی تخت لاہور میاں نوازشریف تھا۔ دونوں میں بعد المشرقین تھا۔ والئی تخت لاہور یا پنجاب اپنا نہ تھا سو محترمہ کے اقتدار کا سنگھا سن ڈھولتا ہی رہا اور دو سال بھی پورے نہ کر سکا۔ یہ تخت لاہور اور پنجاب کی سیاست ہی تھی جس کے آگے بینظیر، غلام اسحٰق خان، غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے جغا دری سیاست دان بے بس ہوگئے۔ صدر غلام آسحٰق خان کی امامت میں غلام مصطفیٰ جتوئی نے وزارت اعظمیٰ کا خواب ضرور دیکھا لیکن۔ تخت لاہور کی طاقت کی بدولت اقتدار کا ہما میاں نوازشریف کے سر پر آ بیٹھا۔

جب میاں نوازشریف اسلام آباد میں تخت نشین ہوئے چوہدریوں کے ساتھ وعدے وعید تو بڑے تھے لیکن میاں صاحباں اتنے بچے نہ تھے کہ طاقت کا مرکز کسی اور کو دے دیتے اور اپنے ایجاد کردہ کھیل میں خود ہی مات کھا تے۔ میاں نوازشریف کی کامیابی پنجاب کی مرہون منت اور پنجاب میاں شہباز شریف کے ہاتھ رہا۔ میاں صاحب جب بھی نکلے اپنی کرتوتوں کی وجہ سے نکلے پنجاب سے انہیں ہمیشہ سکون اور ٹھنڈی ہوا ہی آئی۔ گیلانی اور زرداری صاحب نے جب سلمان تاثیر کے ساتھ مل کر پنجاب میں گورنر راج لگانے کی ناکام کوشش کی مرکز بھی ہاتھوں سے پھسلنے لگا۔ پس اس بھاری پتھر کو چوم چاٹ کر رکھ دیا اور کرپشن سے پاک حکومت جاری رکھی۔

تحریک انصاف میں جو بڑے گروپ آپس میں نبردآزما ہیں ان کی اصل لڑائی تخت لاہور کے لیے ہے۔ راجہ تو اسلام آباد براجمان ہوگا اصل جنگ اس بات پہ ہے شطرنج کی رانی والئی تخت لاہور کون ہوگا۔ گورنر کے پاس کچھ کرنے کا اختیار نہیں سارے اختیار وزیر اعلیٰ کے پاس۔ یہ عذر تراش چوہدری سرور گورنر ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ انہی اختیارات کی تلاش انہیں تحریک انصاف کے در پر لے آئی۔ تیرے در پر صنم چلے آئے۔ چوہدری سرور تو چلے آئے لیکن یہ گانا نیند فلم کا ہے راوی کم ازکم فی الحال تخت لاہور کے حوالے سے انہیں نیند میں مبتلا گردانتا ہے۔

تخت لاہور کے مضبوط ترین امیدوار جہانگیر ترین تھے۔ آج کل تحریک انصاف میں جو لوٹوں یا الیکٹیبلز کی رونق نظر آرہی ہے وہ جہانگیر ترین صاحب کی عالمگیرانہ قیادت کا حسن کرشمہ ساز۔ جہانگیر ترین صاحب فی الحال پارلیمانی سیاست کے لیے نا اہل۔ اس نا اہلی پہ جس کے دل میں خوشی سے لڈو پھوٹ رہے، خوشی کے شادیانے گھی کے چراغ وہ اپنے محترم المقام شاہ محمود قریشی صاحب۔ شاہ صاحب اپنے تئیں خان صاحب کے بعد پارٹی کا سب کچھ۔ سیاست دان تو وہ خان صاحب سے بڑے اس لیےاندرکھاتے پیپلز پارٹی، نون لیگ سے بھی اچھی علیک سلیک۔ اگر کبھی تخت لاہور کے لیے بیرونی کمک کی ضرورت پڑی تو شاہ صاحب بازی لے جائیں گے۔

بات پنجاب کی ہورہی ہے اور تحریک انصاف پنجاب کے صدر علیم خان صاحب ہیں۔ دھندا پراپرٹی کا کرتے ہیں۔ مال و دولت کی اس دھندے میں ویسے ہی فراوانی اوپر سے علیم خان کی دریا دلی۔ جتنے بڑے بڑے جلسے ہوئے ان کے سپانسر علیم خان ہی تھے۔ نون لیگ والے علیم خان کو تحریک انصاف کی اے ٹی ایم کہتے ہیں۔ شاید اس بات میں سچائی بھی ہو۔ کوئی بندہ بھی سیاست کے منافع بخش کاروبار میں مفت میں جیبیں ڈھیلی نہیں کرتا۔ دور مشرف سے تخت لاہور پہ علیم خان کی بھی نظریں ہیں۔ جہانگیر ترین کا وزن بھی کسی حد تک اسی پلڑے میں۔ ساتھ میں علیم خان کے پاس کڑکتے نوٹوں کی سفارش بھی۔

ایک آزاد بندہ راولپنڈی کے حلقوں سے بھی تخت لاہور کا امیدوار و منتظر نام ہے جس کا چوہدری نثار علی خان۔ تگڑا امیدوار اوپری حلقوں میں مقبول بھی بہت۔ شہباز شریف کا یارانہ بھی اور ایچی سن کے زمانے سے عمران خان کا دوست بھی۔ اب شہباز شریف صاحب مرکز میں وزارت اعظمیٰ کے خواب سجائے کرانچی اور کراچی کے پھیرے لے رہے ہیں۔ شہبازشریف کا بر خوردار بھی صوبائی اسمبلی کا امیدوار۔ شہباز شریف کا وارث اورنون کی پنجابی سیاست پہ چھایا ہوا حمزہ شہباز۔ شہباز شریف کی دیگر مصروفیت کےدنوں میں عملاً وزارت اعلیٰ اسی شہزادے کے ہاتھ تھی۔ شہزادہ قومی اسمبلی کے ساتھ چھو ٹے صوبائی میدان میں بڑے خواب لے کر ہی اترا ہے۔ نوازشریف کی دختر نیک اختر مریم نواز بھی لاہور سے صوبائی اسمبلی کی امیدوار ہیں۔ اب نوازشریف کی جانشین شہزادی سپیکر صوبائی اسمبلی بننے کے لیے صوبائی اسمبلی کا الیکشن تو نہیں لڑ رہی آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

پانی پت پنجاب میں تو نہیں لیکن اب کے پانی پت والا رن پنجاب میں پڑا ہے جس کی خاطر شہزادہ، شہزادی اور تحریک انصاف کے جملہ گروہ بند امیدوران ایک دوسرے کی خوب پت اتار رہے ہیں بلکہ پت اڑا رہے ہیں۔ یہی اصل میں تحریک انصاف کی اندرونی سیاست ہے اور یہی میاں صاحبان کی اولادوں کی اندر کی کہانی۔ سیاست میں کچھ حرف آخر نہیں ہوتا۔ آگے کیا ہوگا وہ تو میرا خالق حقیقی و مالک کائنات ہی جانتا ہے۔ راجہ تو اسلام آباد براجمان ہوگا اصل جنگ اس بات پہ ہے شطرنج کی رانی والئی تخت لاہور کون ہوگا۔
الیکشن میں ابھی کچھ مراحل باقی ہیں۔ ہر مرحلے سے پہلے بھی ایک مرحلہ آتا ہے۔
ہزاروں مرحلے آتے ہیں جام اٹھانے سے منہ تک لانے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).