سیکولر اور لبرل دوستوں کو نو مشورے


آج کل مشورہ بازی کا موسم ہے ایک دوسرے کو مشورے دئیے اور وصول کئے جا رہے ہیں۔۔۔ اور وہ بھی بالکل مفت۔۔۔ تو ہم نے سوچا کہ ہم بھی کیوں پیچھے رہیں اور مشورے ہوں بھی بالکل مفت تو کیا حرج ہے۔ لہذا بیٹھے بیٹھے چند سطریں لکھ ڈالیں دیکھا تو وہ ایک کالم بن چکا تھا لہذا آپ کی نذر ہے۔

اس کالم میں ان لبرل دوستوں کو مد نظر رکھا گیا ہے جو سچے مسلمان ہیں اور کم از کم ابھی تک اس پر شرمندگی کا شکار ہونے سطح تک نہیں پہنچے۔

1۔ ہم سب چونکہ مسلمان ہیں اور مسلمانوں والا کلمہ بھی پڑھ رکھا ہے اس لئے اس کلمے کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ اسلام اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا کسی کلمہ گو کو زیب نہیں دیتا۔ اس بات کا خیال اپنی تقریر و تحریر میں رکھنا اشد ضروری ہے۔ ہم سب اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اس یقین کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ مانتے اور جانتے ہیں کہ اللہ تعالی دلوں میں چھپے بھید تک جانتا ہے لہذا مولوی کا نام لے کر یا ملا کہہ کر درپردہ اسلامی شعائر پر پھبتیاں کسنا کوئی قابل تعریف عمل نہیں۔ اللہ تعالی کے ہاں ہر بات کی طرح اس بات کی بھی باز پرس ہو گی۔

2۔ (یہ بات پوائنٹ نمبر1 کا ہی ضمیمہ ہے لیکن اس کی اہمیت کے باعث اسے علیحدہ نکتہ بنایا ہے) راقم سمیت ہر کسی کو یہ بات اپنے ذہن میں اچھی طرح اجاگر کرنی چاہئے کہ ہمیں اپنی ہر بات کا ایک دن اپنے پیدا کرنے والے کو جواب دینا پڑے گا۔ بولے اور لکھے گئے ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہو گا لہذا کوئی ناجائز بات ہمیں اپنے منہ یا قلم سے نکالنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔

3۔ ہم سب پاکستانی ہیں اور سب کا اس ملک پر ایک جتنا حق ہے۔ ہم سب کو مل کر ملک کے مسائل کو حل کرنے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اپنے نظریاتی اختلافات کے ساتھ بھی ہم ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے مل جل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ قرآن تو یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی مشترکہ معاملات پر اکٹھا ہونے کی بات کرتا ہے۔ ہم تو ایک کلمہ، ایک کتاب اور ایک رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں ہم کیوں مشترکہ معاملات پر اکٹھے نہیں ہو سکتے۔

4۔ مغرب کا تہذیبی ماڈل مغرب کے لئے تو قابل عمل ہو سکتا ہے مشرقی تہذیب و تمدن میں اس کی گنجائش نہیں نکالی جا سکتی ایسی سعی لاحاصل رہی ہے اور رہے گی۔ عورت کی آزادی کی دعویدار مغربی تہذیب نے عورت کو جس مقام تک پہنچا دیا ہے وہ انٹرنیٹ کی معمولی باریکیوں سے واقف شخص سے مخفی نہیں۔ کیا ہمیں ایسی آزادی قبول ہے؟

5۔ مغربی تہذیب و افکار کو اپنانا اصل جدیدیت نہیں بلکہ اصل جدیدیت علم و آگہی، سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت اور انسانی اقدار میں ترقی و نشونما ہے۔ اس ضمن میں ہمیں مغرب سے صرف سائنس و ٹیکنالوجی لینی ہو گی تہذیب و افکار نہیں۔ بلکہ بہت ساری چیزیں مغرب کو ہم سے سیکھنی چاہئیں۔ اس بارے میں خوامخواہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس موجود طویل علمی و فکری ذخیرے سے موجودہ دنیا کے مسائل کا حل بخوبی نکالا جا سکتا ہے بس اس کے لئے گہرے علمی کام، منظم جدوجہد اور یکسوئی کی ضرورت ہے۔

6۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ یہ جو مسلمانوں میں فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں یہ کوئی غیر متوقع یا غیر فطری چیز نہیں بلکہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ انسانوں کے ذہن، علم اور رجحان ایک سے نہیں ہوتے ان میں تنوع پایا جاتا ہے اسی تنوع کا قدرت نے خیال رکھا ہے اس وجہ سے شریعت کے احکامات میں حد درجہ گنجائش پائی جاتی ہے۔ بلکہ اگر فقہی اختلاف نہ پایا جاتا تو یہ حیرت انگیز چیز ہوتی۔ جو چیز افسوسناک ہے وہ اس اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی تکفیر اور دشمنیاں ہیں جو کہ ہمارا ایک مشترکہ المیہ ہے اس سے مشترکہ طور پر نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے یہ چیز ہماری سیاست اور معاشرت میں بھی پائی جاتی ہے اور تباہ کن ہے۔

7۔ اگر آج مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے ہیں تو اس کے ذمہ دار ہم سب ہیں صرف ملا یا مسجد میں بیٹھا مولوی نہیں آخر کس مولوی نے یونیورسٹی کے سائنسدانوں اور انجینئرز کو تحقیق و جستجو سے روکا ہے۔ یہ بات معقول نہیں کہ میں تو چاند پر پہنچنے ہی والا تھا کہ مولوی راستے میں آگیا۔

8۔ “تمہارے بڑوں نے پاکستان کی مخالفت کی تھی۔” “قائد اعظم نے تمھارے بڑوں کے لئے یہ لفظ بولا تھا۔” “تمھارے بڑوں نے قائد اعظم کو یہ کہا تھا۔” بھیڑیے اور بھیڑ کے بچے کی یہ لڑائی اب بند ہونی چاہئے۔ یہ ایشوز اب گھس گھس کر پرانے ہو چکے ہیں ان کی تکرار کے باعث نئی نسل اب ان سے بور ہو رہی ہے۔ کیوں نہ ان چیزوں سے آگے بڑھ کر کوئی تعمیری کام کیا جائے۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے۔ کب تک ہم ماضی کے اختلافات سے چمٹے رہیں گے۔ اب سب پاکستانی ہیں اور ملک کے وفادار ہیں۔ سب نے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔

9۔ آخری نکتہ ہمیشہ کی طرح last but not least کے مصداق نہایت اہم ہے۔ اور یہ وہی بات ہے جس پر علامہ اقبال نے اپنے جواب شکوہ کا اختتام کیا تھا۔ اگر ہم اس ایک بات کو ہی اپنا لیں تو ہمیں ساری بات سمجھ آ سکتی ہے اور وہ یہ کہ

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو اس تعلق کے بغیر ہمارا وجود نامکمل ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ہم سے کوئی ایسی بات یا عمل سرزرد نہ ہو جس کی وجہ سے کل کو جب آپﷺ سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے۔

آخر میں اکبر الہ آبادی کا ایک شعر سن لیجئے

تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں جھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو

بس ایک سخن بندہ عاجز کا رہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

معظم معین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

معظم معین

لاہور سے تعلق رکھنے والے معظم معین پیشے کے اعتبار سے کیمیکل انجینئر ہیں اور سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ ہلکے پھلکے موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں

moazzam-moin has 4 posts and counting.See all posts by moazzam-moin

Subscribe
Notify of
guest
22 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments