God جی ! اب بس کر دو پلیز


\"yousafبکھرے اُلجھے بال، بے ترتیب دوپٹہ، اُداس زرد چہرہ، نیند کو ترستی سیاہ آنکھیں اور آنسوؤں کی مسلسل دھارا ۔ یہ تھی 20 سالہ نائیلہ جو اپنی چھوٹی بہن مریم کے جسدِ خاکی پر سر جُھکائے غمگینی کا مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔18 سالہ مریم لاہور میں ماہِ مارچ کے بم دھماکہ کے بعد 24 دن زخموں کی سولی پر لٹکے لٹکے آج جان کی بازی ہار چُکی تھی۔بے جان بہن کے بدن سے لپٹے نائیلہ کچھ دیر زیرِ لب بُڑ بڑاتی رہی اور پھر یکا یک نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھا کے اِ لتجائی انداز میں بے اِ ختیار پُکارنے لگی ’’ God جی ! اب بس کر دو پلیز ‘‘ ’ بس کر دو پلیز ‘‘۔ اُداسی کے یہ الفاظ ماتمی ماحول میں بیٹھے سبھی مرد و زن کا گویا کلیجہ چھلنی کرنے لگے اور نتیجتاً وہاں موجودہر آنکھ اشک پرونے لگی۔

نائیلہ کے لہجے میں یہ کڑواہٹ، اُکتاہٹ اور شاید دبی دبی سی اِلتجا یونہی تھوڑی تھی؟ وہ تو تین ہفتوں سے کرب اور اذیت کے اِسی تجربہ سے گزر رہی تھی اور آج ایک ماہ میں وہ اپنی دوسری بہن کو سپردِ خاک کر نے چلی تھی۔ 27 مارچ کے بم دھماکہ میں نائیلہ کی بڑی بہن عینی جو شادی کے بعد ایسٹر کا پہلا تہوار منانے والدین کے ہاں آئی تھی اُسی روز پارک میں ہی دَم توڑ چُکی تھی۔ عینی کی شادی کو دو ماہ سے بھی کم عرصہ گُزرا تھا اور اُس کا شوہر اب بھی جسمانی اور نفسیاتی طور پر زخموں سے چُور ہے۔ نائیلہ کا دوہرا کرب یہ تھا کہ آج اُس کی چھوٹی بہن مریم بھی اُ سے تنہا کر گئی تھی۔

عینی، نائیلہ اور مریم، تین بہنیں تین کہانیاں، تینوں باپ کی شہزادیاں اور بھائیوں کی جان۔ تینوں کبھی گُڑیوں سے کھیلتیں، کبھی گھروندے بناتیں، کبھی جھولے جھولتیں تو کبھی باپ پر بِلا شرکتِ غیر جاگیرداری کا دعویٰ جتاتیں، مگر آج دونوں بہنیں باپ کا سارا پیار، بھائیوں کی چاہتوں کی ساری گرماہٹ، سارے گھروندے، ساری گُڑیائیں بلکہ رشتوں کی ساری جاگیریں نائیلہ کی جھولی میں ڈال گئیں تھیں مگر وہ کچھ بھی لینے سے انکاری تھی۔ نائیلہ کا سبھی کچھ تو بہنوں کے قہقوں، روٹھنے اور منانے سے جُڑا ہوا تھا۔

مریم کے سوگوار باپ سلیم مسیح کے ساتھ تعزیت کے لئے آنے والوں کا تانتا بندھا تھا۔ فرش پر بیٹھا سلیم ظاہراً ہر آنے والے سے محوِ گفتگو تھا مگر اُس کے چہرے کی بے چینی اُس کے اندر کی کہانی بیان کر رہی تھی۔ سلیم کبھی دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھاتا، کبھی گفتگو کے دوران کمزور دِل باپ ظاہر ہوتا مگر پھر اُسی لمحے ہمت اور حوصلے کا بے پایاں پیکر دِکھائی دیتا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کی ہمت دراصل خاندان کی ہمت ہے۔ دُور سے آنے والے کسی عزیز کو فون پر رستے کی رہنمائی کے بعد راقم ابھی ذہن میں تعزیت کے الفاظ کی ترتیب بنا ہی رہا تھا کہ سلیم کسی سے کہنے لگا، ’’آج دو ہفتوں بعد دو گھڑی آنکھ لگی ہی تھی کہ رات ساڑھے تین بجے کے قریب میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا ، اچانک سے میری آنکھ کھُل گئی، عجیب سی بے چینی اور وحشت ہونے لگی، دل ڈوبنے لگا اور وسوسے جنم لینے لگے۔ میں نے دُعا شروع کر دی تو میری زُبان پر بے اِختیار ’’ تما م ہوا‘‘ کے الفاظ آ گئے۔ دُعا کے دوران ہی میرے بیٹے دانش نے فون کیا مگر وہ رونے کے سوا کوئی بات نہ کر سکا اور میں نے اُس کی ہمت بندھائی کیونکہ میں جانتا تھا اب تمام ہوچکا ہے۔

بم دھماکہ میں شدید زخمی ہونے کے نتیجہ میں مریم کی سانس اور خوراک کی نالیاں انتہائی حد تک متاثر ہوئیں تھیں اور نتیجتاً وہ مصنوعی تنفس کے سہارے بس ’’زندہ‘‘ ہی تھی۔شدید زخموں کی وجہ سے مریم قوتِ گویائی کھو چُکی تھی اور اُس کے لئے اظہار کا واحد ذریعہ فقط آنکھ کی پُتلی کی معمولی سی جنبش ہی باقی بچا تھا۔ ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے یہ 24 دن کسی صلیبی راستے کے تجربہ سے کم نہ تھے۔ اِن24 دِنوں میں مریم کس کس بات کا اظہار کرنا چاہتی تھی یہ راز اب منوں مٹی تلے دب چکا ہے۔ ICU میں جب کبھی باپ اپنی بیٹی کی آنکھوں کو پڑھنے کی کوشش کرتا تو اُس کی اپنی آنکھیں اُس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتیں اور نائیلہ تو بسا اوقات اِسی کوشش میں بہن کی آنکھ کی پہیلیوں میں گم بھی ہو چُکی تھی۔ قلم اُس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہے کہ جب بیٹی باپ سے کچھ کہنا چاہتی ہو گی پر نہ کہہ سکتی تھی اور جب باپ ہر روز بیٹی کی آواز سننے کی آس لئے اُس کے سرہانے جا کھڑا ہوتا ہو گا تو مایوسی کے اِس عالم میں دونوں کس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوں گے‘‘۔

نائیلہ خدا کی عنایات کی شکر گزار تو ہے ہی مگر زندگی کی بے مروتی سے بھی سخت نالاں ہے۔ زندگی کا یہ روپ اُس نے سوچا ہی کب تھا؟ جن بہنوں کے ساتھ ماہ وسال تو کیا جنم جنم ساتھ نبھانے کے سپنے دیکھے ہوں اُن کے بِنا اب کون جی پائے گا بھلا؟

اُس دن تو سورج کو بھی گویا اپنی گرمائش پر حد درجہ غرور تھا مگر مریم کے آخری دیدار کے متوالوں نے سورج کے غرور کو بھی غروب کر دیا۔ آخری سفر سے قبل رشتہ داروں اور سوگواروں کی آنکھوں سے آنسو برس رہے تھے اور چہرے پسینے سے شرابور، یوں معلوم ہورہا تھا گویا پسینے اور آنسوؤں کا یہ ملن ہی جذبوں کو گرما رہا تھا۔ مریم ایک ستون سے ٹیک لگائے اُن خوابوں کو چِکنا چُور ہوتے دیکھ رہی تھی جو اُس نے بہنوں کے ساتھ مل کر بُنے تھے۔ بہنوں کو عمر بھر کے لئے کھو دینے کے خیال سے ہی نائیلہ کے دل کے اندر سے تلوار گزر رہی تھی اور ایسے میںGod جی سے محبت بھرا گِلا، التجا، دبی سی دعا اور گہرے کرب سے گزرنے کے بعد’ اب بس کردو پلیز‘ دِل کی پُکار ہے۔ یہ دراصل وہ انسانی کمزوری تھی جو کسی بھی بناوٹ سے عاری اور اپنے اندر حقیقت پر مبنی احساسات سموئے ہوئے تھی۔

دو جواں سال بیٹیوں کو لحد میں اُتارنے کے بعد سلیم دہشت گردوں کی راہِ راستی پر واپسی کا متمنی ہے کہ خدا اُن کو نیک ہدایت دے۔ عینی، مریم اور شریکِ حیات کے رحلت کر جانے کے بعد سلیم کے لئے اپنے خاندان کی تسلی، تشفی اور زندگی میں واپس لوٹ آنا حقیقت بھی ہے اور بڑا چیلنج بھی۔ سلیم کی شریکِ حیات کا انتقال 12 برس قبل ہو گیا تھا۔ نائیلہ کے دل سے نکلنے والے یہ الفاظ ہر امن پسند شخص کی بھی آواز ہیں اور ہم سب کی آشا بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments