نجی اور سرکاری سکولوں کی حالت


پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ۔
اضافے کے بعد ٹرانسپورٹ کرایوں میں اضافہ۔
کرایوں میں اضافے سے سبزیوں، پھلوں اور اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ۔
قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افراط زر (مہنگائی) میں اضافہ۔
اپوزیشن جماعتوں کا مہنگائی پر احتجاج اور اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ۔
اور پھر۔ یہ جا، وہ جا۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد اپوزیشن جماعتوں اور عوام کی طرف سے خوب واویلا تو کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے نا تو حکومت کے کان پر جوں رینگتی ہے اور نا ہی عوام مہنگی ہونے والی پٹرولیم مصنوعات کا بائیکاٹ کرتے ہیں۔

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود پیٹرول یا ڈیزل کا استعمال عوام کی مجبوری ہے۔ اسی لئے قیمتوں میں اضافے پر کچھ دنوں کے لئے احتجاج کیا جاتا ہے اور پھر معاملہ رفع دفع ہوجاتا ہے۔

پٹرولیم مصنوعات کی طرح والدین کی بھی مجبوری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ لیکن سرکاری اسکولوں کے حالات والدین کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوائیں۔ جن کی سرکاری تحویل میں لینے کا عندیہ گزشتہ دنوں چیف جسٹس سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے نجی اسکولوں کی فیسوں سے متعلق فیصلے کو معطل کرتے ہوئے دوران سماعت دیا۔

یہ حقیقت ہے کہ آئین کے آرٹیکل 25۔ A کے تحت 5 سے 16 سال کے عمر کے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ لیکن جو ریاست بچوں کو صاف پینے کا پانی تک فراہم نہیں کرسکتی، صحت کی سہولتیں بڑے شہروں میں مشکل سے دستیاب ہیں۔ جس ریاست میں بچوں کی زچگی زچہ بچہ سنٹرز کی بجائے سڑکوں، رکشوں اور سیڑھیوں پر ہورہی ہے۔ وہی ریاست ہر بچے کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ داری کیسے نبھا سکتی ہے؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ نجی سکولوں کی فیسیں والدین کے لئے دینا آسان نہیں اور ان میں ہر سال اضافہ اکثریتی والدین کے لئے پریشانی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن نجی سکولوں کو سرکاری تحویل میں دینا بھی کسی صورت اس مسئلے کا حل نہیں۔

اس کے علاوہ محترم چیف جسٹس صاحب، جس سرکار کی تحویل میں پرائیویٹ سکولوں کو دینا چاہتے ہیں۔ اُن کی تحویل میں پہلے سے موجود اداروں کی حالت تو زار تو دیکھ لیں۔ پی آئی اے کے دن دگنے اور رات چوگنے خسارے تو دیکھ لیں۔ سٹیل مل کی تباہی کی وجوہات تو جان لیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ایک ایک بستر پر کئی کئی لیٹے مریضوں کی عیادت تو کرلیں۔ یہ سب چھوڑیں، سرکاری تحویل میں چلنے والے اُن ہسپتالوں کی حالت ہی دیکھ لیں۔ جن کے دوروں کے دوران چیف جسٹس صاحب خود ششدر رہ گئے تھے۔

نجی سکولوں کو سرکاری تحویل میں دینے سے پہلے محترم چیف جسٹس صاحب ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اس قابل تو بنالیں کہ وہ نجی سکولوں کو تحویل میں لے سکیں۔ جو 35 وزارتیں وفاق کے پاس اور درجنوں وزارتیں صوبوں کے پاس ہیں۔ ان کی کارکردگی تو دیکھ لیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی کارکردگی ہی دیکھ لیں۔ جو کہ بیرون ملک زیر تعلیم پاکستانی طالب علموں کو مقررہ وقت پر وظائف جاری کرنے سے قاصر ہے۔ سرکاری جامعات سے ہر سال پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹرز کو ہی دیکھ لیں۔ جو کہ تحقیق پر سالوں لگاتے ہیں۔ مگر حالیہ سالوں میں کوئی بھی ایسا پی ایچ ڈی کا ڈاکٹر نہیں نکلا۔ جس کی تحقیق سے زراعت میں، کیمیات میں یا کسی بھی شعبے میں پاکستان کا نام لیا گیا ہو۔

محترم چیف جسٹس صاحب سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ نجی سکولوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ سکولوں کے برابر لے آئیں۔ تاکہ ہم مجبور والدین خود اپنے بچوں کو نجی اسکولوں سے ہٹا کر سرکاری سکولوں میں داخل کروادیں اور اگر آپ پھر بھی پرائیویٹ اسکولوں کو سرکاری تحویل میں دینے پر بضد ہیں تو پرائیویٹ ہسپتال بھی بند کروائیں۔ کیونکہ صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

پرائیویٹ سیکیورٹی فراہم کرنے والی ایجنسیوں کو بھی بند کروائیں۔ کیونکہ عوام کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔
پی آئی اے کے ہوتے ہوئے نجی ایئرلائنز کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔
اس کے علاوہ تمام بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے نجی اداروں کو بھی سرکاری تحویل میں لیں۔ جو کہ سرکار کی طرف سے نافراہم کردہ سہولیات عوام کو فراہم کر رہی ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں میں ہونے والا اضافہ والدین کے لئے پشیمانی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن فیسوں میں ہونے والے اضافوں کو والدین کی قوت برداشت اور پرائیویٹ سکولوں کے خرچوں میں ہونے والےاضافے کو مد نظر رکھ کر بھی تو کیا جاسکتا ہے۔ لازمی تو نہیں کہ جو چیز ٹھیک نا چل رہی ہو۔ اسے سرکاری تحویل میں دے دیا جائے۔

اس مسئلے کا حل سرکاری سطح پر نجی سکولوں کے لئے ایک ضابطہ کار بنانا ہوگا۔ جس سے نجی سکول والے بھی معیاری تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور والدین پر بھی بچوں کی فیسوں کا ناجائز بوجھ نا پڑے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے نجی سکولوں کی انتظامیہ کی خدمات بھی سرکار لے سکتی ہے۔ تاکہ سرکاری سکولوں کو نجی سکولوں کا متبادل بنایا جائے۔ اگر سرکاری اسکولوں کا معیارتعلیم بھی پرائیویٹ اسکولوں کے معیار کے برابر ہوجاتا ہے۔ تو والدین پاگل تھوڑا ہیں۔ جو مہنگی فیسوں والے اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).