لیڈر شپ اور مفاداتی ٹولے میں فرق


راجہ بشارت صدیقی

\"basharat\" لیڈرشپ ایک خداداد صلاحیت ہے۔ قدرت کسی ایک فرد کو یہ صلاحیت دے کر اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنے جیسے ہزاروں لاکھوں افراد کی قیادت کرتا ہوا انہیں کسی اچھائی یا برائی کے راستے پر گامزن ہونے پر آمادہ کرتا ہے۔ لیڈر شپ کی خصوصیت چند مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے باقی ماندہ افراد کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ اس کے پیچھے چلیں اس کے کہے پر سر تسلیم خم کریں اور انہیں یقین ہو کہ ہمارا لیڈر ہی ہمیں مشکل اور پرپیچ راستوں سے نکال کر منزل کی طرف لے جائے گا۔ لیڈر ایسا ہوتا ہے جو ملک میں امن کی فضا قائم کر سکے۔ ایک سچا اور ایماندار لیڈر اپنے لوگوں کے درمیان اور ان کے لئے زندہ رہتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی گونا گوں لیڈر موجود ہیں۔ ان میں بہت سے لیڈر ایسے ہیں جو صرف نام کے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ لیڈر تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لیڈر پیدائشی ہوتے ہیں کچھ محنت کر کے عظمت حاصل کرتے ہیں اور کچھ لوگوں پر عظمت زبردستی تھوپی جاتی ہے۔ ماشاء اللہ ہمارے لیڈر ایسے ہیں جو آمریت کی گود میں پلے ہوں۔ ہمارے ہاں جمہوریت آمریت کی گود میں پلتی ہے اور آمریت انسانی کھالوں کے خیموں میں رہنے کی عادی ہے۔ وہ لیڈر جو آمریت کی گود میں پلے ہوں ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ جمہور کی فلاح کے لئے کام کریں گے احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ ایسے تمام لیڈر جنہیں اپنے اختیارات سے استحکام حاصل کرنے والے حکمران کہنا زیادہ مناسب ہوگا عوام الناس سے ایک مخصوص فاصلے پر رہتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو قانونی عمل سے بالکل علیحدہ رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو کسی اور سیارے کی مخلوق سمجھتے ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ پاک دامن ایسے ہیں کہ دامن نچوڑیں تو فرشتے وضو کریں۔

ہمارے نام نہاد لیڈر حقیقت میں افلاطون کے دیئے ہوئے اس سبق پر چل رہے ہیں کہ بادشاہ غلطی نہیں کرتا۔ ایسے لیڈروں کو عوام کے مسائل کا ادراک کیسے ہوسکتا ہے، یقیناً نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس صرف پرکشش نعرے ہی ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خیرخواہ ہیں۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں مفاد پرست ٹولے نے پاکستانی قوم کو یرغمال بنالیا ہے۔ اس مفاد پرست ٹولے نے قیادت کے معنی و مفاہیم ہی بدل دیئے ہیں۔ لیڈر جیلیں بھی کاٹتے ہیں اور جلاوطن بھی ہوتے ہیں۔ جلاوطن سے مراد یہ ہے کہ جسے زبردستی ملک سے باہر بھیجا جائے جس طرح شریف فیملی راضی بہ رضا گئی تھی اس کو جلاوطنی نہیں کہا جاتا۔لیڈر جب جلاوطن یا جیلوں میں جاتے ہیں تو وہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہیں۔ سوچ و بچارکرتے ہیں کتابیں لکھتے ہیں کہ اگر قدرت نے ہمیں دوبارہ موقع دیا تو ہم قوم کی رہنمائی کس طرح کریں گے۔ جلاوطنی اور جیلوں کی سختیوں سے بھی ان کے پایہ استقلال میں لغزش نہیں آتی۔

ہندوستان کے سابق وزیراعظم جواہرلعل نہرو نے اپنی زندگی کے نو سنہرے سال برطانوی قید خانوں میں گزارے لیکن اس دوران اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹے۔ نہرو خاندان کے ہر فرد نے جیل بھگتی۔ موتی لعل کی بیوی سواروپ رانی سے لے کر ان کی اٹھارہ سالہ بیٹی چند ریکھا تک۔ جواہرلعل نے 45 سال کی عمرمیں اپنی سوانح عمری لکھی انھوں نے کہا کہ میری جدوجہد تاریخ کی بجائے میری ذہنی نشوونما کا احاطہ کرے گی۔ 1936 میں جب وہ کتاب شائع ہوئی تو اسے عصر حاضر کے عظیم ترین ذہنوں میں سے ایک کے متعلق قیمتی دستاویز قرار دیا گیا۔ نہرو کی تین بہترین کتابیں جیل میں گزرنے والے دنوں کا عطیہ ہیں اس نے جیل کو دنیا کا سب سے منفرد سکول قراردیا۔

ذولفقار علی بھٹو شہید نے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اورتاریخ کے ہاتھوں مرنے سے بچ گیا مگر میاں نوازشریف نے جیل میں گزرے ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ خود ساختہ جلاوطنی زندگی میں کوئی کتاب تو نہیں لکھی مگر دو کام ضرور کیئے اول شہنشاہیت کا قریب سے مشاہدہ کیا ثانیاً بقول حسن نثار دونوں بھائیوں نے سر کے بال لگوائے وہ بھی بڑے بھائی نے کالے اور چھوٹے بھائی نے سفید۔ کرپشن کے سنگین الزامات لگے پانامہ لیکس میں ان کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے تذکرے ہوئے اپوزیشن نے حساب مانگا تو آگے سے جواب ملا ہم لوہے کے چنے ہیں جو چبائے گا دانت ٹوٹ جائیں گے۔ ہندوستان کے مشہور کالم نگار محمد عرفان لکھتے ہیں کہ 1965 میں لال بہادر شاستری ہندوستان کا وزیراعظم تھا۔ وہ پنجاب نیشنل بنک سے5000 روپے کار کی خریداری کیلئے قرض لیتا ہے۔ وہی لال بہادر شاستری جس نے  1965 کی جنگ میں کہا کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے تو جواب میں جنرل ایوب نے طنز کی کہ یہ چھوٹو کیا کرے گا۔ 1966 میں تاشقند میں فوت ہو جاتے ہیں تو بینک اس کی بیوہ للیتا شاستری کو خط لکھتا ہے کہ5000 روپے بنک کا قرضہ آپ کے ذمہ ہے وہ آپ کو ادا کرنا ہوگا۔ اس کی بیوہ نے اگے سے’’ تڑی ‘‘نہیں لگائی بلکہ وعدہ کیا کہ فیملی پنشن سے رقم قسطوں میں ادا کی جائے گی اور انھوں نے بہرصورت رقم ادا کی۔

ہمارے ہاں ملک ہضم کرنے کے بعد ڈکار بھی نہیں لیتے کہ کسی دوسرے کو خبر نہ ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments