وہ بچے جن کے لئے روٹی ایک زہر ہے – سیلیک ڈیزیز


 

”ڈاکٹر صاحبہ، میرا بچہ روٹی کے لئے تڑپتا ہے۔ روتا ہے اور مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں کیا کروں؟ “ بے بسی سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے ماں کی آنکھ میں آنسو آ گئے۔

یہ خاتون ریگولر اپنے بچے کو میرے پاس چیک اپ کے لیے آتی تھی۔ مگر اس بار لہجے کی یہ بے بسی پہلے سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ نم لہجہ اپنے پانچ سالہ بیٹے پر بیتنے والے دکھ کی کہانی سنا رہا تھا۔ اس کا ننھا سا بیٹا عام بچوں جیسا ہوتے ہوئے بھی ویسا نہیں تھا۔ وہ روٹی نہیں کھا سکتا تھا۔ آئس کریم، کیک، مٹھائی، بسکٹ، غرض اس زمین پر موجود ڈھیروں ڈھیر نعمتیں اس معصوم کے لیے حرام تھیں۔ وہ بس پھل کھا سکتا تھا اور دیگر کچھ مخصوص غذائیں۔

اس کی ماں کو تسلی دیتے ہوئے میں نے اسے شہر میں ایک نئے کھلنے والے سٹور کا بتایا جہاں ایک مخصوص قسم کا آٹا بھی دستیاب تھا جو اس بچے کے لیے شجر ممنوعہ نہیں تھا۔ وہ عورت اپنے بچے کو لے کر آنسو پونچھتے ہوئے چلی گئی لیکن میں جانتی تھی کہ وہ آٹا اتنا مہنگا ہوتا ہے کہ صرف خواص ہی اسے خریدنے کی جسارت کر سکتے ہیں۔ تین سال قبل یہ عورت اپنے شدید قسم کے بیمار بچے کو لے کر ہمارے ہسپتال کے بچہ وارڈ میں آئی تھی۔

بچے کو شدید قسم کے دست اور الٹیوں کی شکایت تھی جو کہ چھ ماہ سے مسلسل تھے۔ چھ ماہ تک محلے کے ڈاکٹر سے علاج کرواتی رہی اور جب محلے کے ڈاکٹر اور حکیم صاحب کا ہر حربہ ناکام ہو گیا، دستوں کے لیے ہر دوا اور ٹوٹکہ آزما کر دیکھ لیا گیا اور بچے کی جان کے لالے پڑ گئے تب ان کو خیال آیا کہ سرکار کی طرف سے مہیا کردہ ہسپتال کو بھی آزمایا جائے۔ بچے کو ایمرجنسی ٹریٹمنٹ دینے کے بعد شک کی بنیاد پر اس کے ٹیسٹ کروائے گئے جن سے شک یقین میں بدل گیا۔ کہ وہ بچہ سیلیک ڈیزیز Celiac Disease کا شکار تھا۔ ایک ہفتے تک داخل رکھنے کے بعد بچے کو چھٹی دے دی گئی مگر اس کی ماں کو اس کی خوراک سے متعلق مکمل ہدایات دینے کے بعد۔ ڈاکٹرز کے لیے روٹین کی ایک کارروائی لیکن بھگتنے والے کے لیے زندگی بھر کا آزار۔

کیاآپ جانتے ہیں سیلیک ڈیزیز کیا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

اس بیماری کا شکار مریض کاربوہائیڈریٹ ڈائٹ میں موجود ایک خاص جزو گلوٹین کو ہضم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نتیجتا کاربوہائیڈریٹس کھاتے ہی اسے الٹیوں اور دست کی شکایت ہو جاتی ہے۔ یہ بیماری عمر کے کسی بھی حصے میں ظاہر ہو سکتی ہے مگر اس کی سب سے بڑی وجہ ہیں ”جینیٹک فیکٹرز“ جی ہاں۔ یہ بیماری جینز کے ذریعئے منتقل ہوتی ہے اور کزن میرج اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

جب نسل در نسل شادیاں خاندان میں ہی ہوتی رہیں تو نئی جینز ناپید ہو جاتی ہیں اور پرانی جینز میں کچھ تبدیلیاں آنے کے بعد اگلی نسل میں اس کا نتیجہ مخصوص بیماریوں کی شکل میں نکلتا ہے جن میں سے ایک سیلیک ڈیزیز بھی ہے۔ اس بیماری کا شکار فرد گندم، چاول، آئس کریم، مٹھائی، کیک غرض کوئی بھی ایسی چیز نہیں کھا سکتا جس میں کاربو ہائیڈریٹ ہو۔ کاربو ہائیڈریٹس۔ جو ہمارا پیٹ بھرنے کا ذریعہ ہیں۔ ہم جو کچھ مرضی کھا لیں، پیٹ تب تک نہیں بھرتا جب تک کاربوہائیڈریٹ نہ کھا لیں، جب تک روٹی نہ کھا لیں۔ سوچیں اس ننھے سے بچے پر کیا گزرتی ہو گی جس کے لیے یہ سب نعمتیں شجر ممنوعہ ہیں۔

بے شک بیماری اللہ کی طرف سے آتی ہے لیکن کچھ زمینی وسائل بھی وجہ بنتے ہیں۔ جیسا کہ اس بچے کی ماں نے مجھے بتایا تھا کہ تقسیم ہند سے قبل سے ان کے خاندان میں رواج چلا آ رہا ہے کہ شادی کرنی ہے تو اپنے ہی خاندان میں کرنی ہے خواہ اس کے لیے لڑکی کو اپنے سے پندرہ سال چھوٹے لڑکے سے شادی کرنی پڑے یا پچیس سال بڑے بابے سے۔ اور اگرچہ کہ ”ڈاکٹار“ نے اس کو اس کے بچے کی اذیت کی بنیادی وجہ بتا دی تھی مگر وہ غریب لاچار عورت نسلوں سے چلے آنے والے اس رواج کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہے اور اس کے خاندان میں پتہ نہیں اور کتنے بچوں نے جنم لینا ہے جن کے لیے روٹی ساری زندگی کے لیے شجر ممنوعہ ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).