جو نہیں ہو گا وہ اخبار میں آ جائے گا


پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک صرف چار سو خاندان اس ملک کی سیاست پر راج کرتے آئے ہیں۔ ان خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیا جائے تو ان کی تعداد تقریباﹰ ایک ہزار بنتی ہے۔ آج تک یہی بے رحم ایلیٹ کلاس اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سسکتے، بلکتے غریب عوام کو خوشحال بنانے، انہیں تین وقت کی روٹی دینے، سڑکیں، گلیاں، تعلیم اور صاف پانی فراہم کرنے کے نعرے لگاتی آئی ہے۔

پاکستان میں بدترین فوجی آمریت ہو یا جمہوریت، حکومت مسلم لیگ کی ہو یا پیپلز پارٹی کی، تحریک انصاف کی ہو یا پھر قاف لیگ کی، اسمبلیوں تک نوے فیصد انہی ایک ہزار خاندانوں کے جاگیردار، زمیندار، صنعت کار اور قبائلی سردار پہنچتے ہیں۔

اس وقت بیشتر سیاسی جماعتیں محض نام کی جمہوری جماعتیں ہیں۔ ان نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتوں کے تمام تر فیصلے صرف چند لیڈر آمرانہ انداز میں کر رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کی جمہوریت کی اوقات صرف اتنی ہے کہ ایک طرف عشروں سے چلے آ رہے یہ خاندانی لیڈر ہیں اور دوسری طرف ان کی پیروی کرنے والے نسلی غلام۔

پچاس کی دہائی سے لے کر آج تک تقریباﹰ ان ایک ہزار خاندانوں کا مرکزی مقصد اپنے ذاتی مفادات، اپنے رشتہ داروں، اپنے خاندان یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنے قبیلے یا برادری کے مفادات کا تحفظ رہا ہے۔ ایک پلڑے میں پاکستان کے نوے فیصد قانون سازوں، ایم پی ایز اور ایم این ایز کی ذاتی لینڈ کروزرز، محل نما بنگلوں، زمینوں اور جائیدادوں کو رکھیے اور دوسرے پلڑے میں پاکستان کے دو سو ملین سے زائد عوام کو ملنے والی سہولیات کو رکھیے، آپ کو فرق سے پتا چل جائے گا کہ قوم یا عوام کے مفاد میں انہوں نے کس قدر ’جانفشانی‘ سے کام کیا ہے۔

اپنی ذاتی مفادات کے لیے یہ خاندانی سیاستدان کسی بھی جماعت کو چھوڑ سکتے ہیں اور کسی بھی نئے اتحاد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان خاندانی سیاستدانوں کو نہ تو نظریات اور نہ ہی ترقیاتی منصوبوں سے کوئی دلچسپی ہے۔ جمہوریت کے ان ٹھیکیداروں کی تمام تر ہمدردیاں متوقع مالی فوائد، ممکنہ وزارتوں، عہدوں، اقتدار اور طاقت کے ساتھ نتھی ہیں۔ یہ لوازمات جو بھی فراہم کرے گا، چاہے وہ ڈکٹیٹر ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو یا کسی بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما، ان کی وفاداریاں انہی کے ساتھ ہوں گی۔ یہ نعرہ ہر مرتبہ جمہور اور جمہوریت کا لگاتے ہیں لیکن عملی طور پر جمہوریت اور جمہوری اقدار ان کے جوتے کی نوک پر ہیں۔

ایک طرف ایک غریب ووٹر کی بیٹی ہے، جسے زچگی کے وقت مناسب سہولیات نہیں ملتیں اور وہ جان کی بازی ہار جاتی ہے، دوسری طرف ایک سیاستدان کی بیٹی ہے، جس کے ناک کے بیوٹی آپریشن کا خرچ بھی حکومت اٹھاتی ہے۔ ایک طرف ایک ووٹر کی ٹیچر بیٹی ہے، جو کچے پکے راستوں کی دھول پھانکتے ہوئے عمر گزار دیتی ہے۔ دوسری طرف ان قانون سازوں کی وہ بیگمات، بیٹیاں، بھانجیاں اور بھتیجیاں ہیں، جن کی شاپنگ کے لیے پٹرول تک کسی بیوہ استانی کی تنخواہ کے ٹیکس سے آتا ہے۔

ایک طرف سخت گرمی اور پسینے کی بدبو میں کام کرنے والے مزدوروں کے وہ بچے ہیں، جن کے مقدر میں جعلی ادویات لکھ دی گئی ہیں تو دوسری طرف ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی وہ کرپٹ اشرافیہ ہے، جس کے لیے سر درد کی دوا بھی بیرون ملک سے آتی ہے اور ان کے گھوڑوں کے علاج کے لیے بھی اسپیشلسٹ موجود ہیں۔

ایک طرف غریب کے پسینے سے چلنے والی موٹے ٹائروں والی سرکاری گاڑیاں ہیں، جو سیاستدانوں کے بچوں کو ایئر کنڈیشنڈ کمروں سے نکال کر ایئر کنڈیشنڈ اسکولوں تک چھوڑتی ہیں، دوسری طرف وہ بچے ہیں جو پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں بسوں اور ویگنوں سے لٹک کر سرکاری اسکولوں تک پہنچتے ہیں۔

اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جاگیردار، یہ وڈیرے، یہ صنعت کار تحریک انصاف میں جا کر یا کسی دوسری جماعت کا جھنڈا لے کر راتوں رات اپنے عشروں کے مفاد پرستانہ کردار کو بدل ڈالیں گے تو یہ صرف خام خیالی ہے، دیوانے کا خواب ہے۔ یہ الیکٹ ایبلز، یہ ایک ہزار خاندانوں کے چشم و چراغ، یہ وڈیرے، یہ جاگیردار عمران خان کی جھولی میں بیٹھ کر بھی خیال اپنے مفادات کا ہی رکھیں گے۔

چوروں اور ڈاکوؤں کی کم از کم یہ خوبی تو ہوتی ہے کہ وہ منافق نہیں ہوتے۔ آدمی دیکھتے ہی یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ لوٹنے آئے ہیں۔ ٹھگوں یا نوسر بازوں کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ پہلے بندے کا اعتماد حاصل کرتے ہیں، اس کے دل میں یقین پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں۔ لیکن لٹ جانے کے بعد انسان کو پتا چلتا ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہو چکا ہے۔

آئندہ انتخابات سے پہلے ایک مرتبہ پھر یہ بازی گر میدان میں اترے ہیں، ایک مرتبہ پھر ہسپتالوں میں لاعلاج مرنے والوں کا دکھ ان کو ستائے جا رہا ہے، ایک مرتبہ پھر غریب کی بیٹی کا جہیز نہ ہونے کا غم ان کی ’راتوں کی نیندیں اڑا چکا‘ ہے۔

یہ شعبدہ باز ماضی کی طرح پھر وہی پرانے سبز باغ دکھا رہے ہیں۔ میرے علاقے کا جاگیر دار ایم این اے پھر کہہ رہا ہے کہ نوکریاں دلواؤں گا، نئی سڑکوں کا جال بچھا دوں گا، ہر دیہات میں گیس پہنچے گی، تمہارے بچے اسکول جائیں گے۔ عوام کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ان نوسر بازوں نے تو گزشتہ برس بھی سڑک بنوائی تھی لیکن وہ ٹوٹی کیوں؟ ان ٹھگوں نے ٹھیکدار سے کتنا حصہ وصول کیا؟ عوام کے ٹیکس سے ہی سڑکیں اور پل بنا کر کیا احسان کیا ہے انہوں نے؟ سڑکوں اور تمام سرکاری کاموں کا ٹھیکہ ان کے دوستوں کو ہی کیوں ملتا ہے؟

جاگیر دار اناج اگانے والے بھوکے پیاسے کسانوں کی اولاد کو ایک مرتبہ پھر بریانی کی پلیٹوں کا جھانسہ دے رہے ہیں۔ دوائیاں سستی اور نئے ہسپتال بنانے کے خواب ایک مرتبہ پھر دکھائے جا رہے ہیں۔ وڈیروں کے ہاتھ غریب کے ’’ناپاک‘‘ ہاتھوں کو پھر چُھو رہے ہیں۔ مزدور کے پسینے کی بُو پھر چند لمحات کے لیے صاحب کے گلے پر لگے پرفیوم سے مدھم پڑ رہی ہے۔ پھر غریب اپنے بچے کو افسر بنتا دیکھ رہا ہے اور ایک مرتبہ پھر کسانوں کی آنکھوں میں کھادیں سستی اور گندم کے ریٹ مناسب ملنے کی اُمیدیں جاگنے لگی ہیں۔

لیکن پاکستان کے نسل در نسل دھوکا کھانے والے عوام کو اس وقت ہوش آتا ہے، جب نسل در نسل لٹیروں کی امپورٹڈ گاڑیاں ان کے درختوں کے حصے کا پانی تک پی چکی ہوتی ہیں۔ یہ سیاستدان ہرگز نہیں ہیں، یہ نوسر باز ہیں، یہ ٹھگ ہیں بلکہ یہ بنارسی ٹھگ ہیں۔

برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ سے ورثے میں ملنے والی پاکستان کی بیوروکریسی بھی ان ٹھگوں سے اتحاد کر چکی ہے، جو خود کو عوام کی خدمتگار کی بجائے ان کا مالک تصور کرتی ہے۔ تھانوں سے لے کر شہری انتظامیہ کے تمام دفاتر تک ان نوسر بازوں کا سکہ چلتا ہے۔

سچ پوچھیے تو ’دو ٹکے کے پاکستانی عوام‘ فوج، سیاستدانوں اور عدلیہ کے درمیان وہ فٹ بال بن چکے ہیں، جسے ہر کوئی ٹھوکریں مار رہا ہے۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی اُنہی سیاستدانوں کے خلاف متحرک ہوتی ہے، جو بوٹوں والوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے سے انکار کر دیتے ہیں اور دوسری طرف ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بھی اسی وقت بلند ہوتا ہے، جب لاہور والوں کا اپنا تخت و تاج لٹ جاتا ہے۔ ورنہ عوام کون اور یہ ووٹ اور ووٹر کون؟

فوج کو شاید کرپٹ سیاستدان ہی راس ہیں کیوں کہ وہ سر اٹھانے کی جرات نہیں کرتے اور سیاستدانوں کو فوج اس لیے پسند ہے کہ یہ ان کے حصے کا کام بھی وہ کر دیتی ہے اور انہیں اس کرسی تک پہنچا دیتی ہے، جہاں وہ عام حالات میں کبھی پہنچ ہی نہ سکیں۔

رہی بات عدلیہ کی تو وہ غسل خانے میں لگی وہ لائٹ ہے، جسے ہر آنے جانے والا آن، آف کرتا رہتا ہے۔ جب لائٹ آتی ہے تو اسے غسل خانے میں داغ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور جونہی سوئچ آف ہوتا ہے تو سب اچھا ہے۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر اپنے مفادات کو ٹھیس نہ پہنچے تو پاکستان میں فوج، عدلیہ اور سیاستدان اشرافیہ کو آپس میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں، کوئی تکلیف نہیں۔ انصاف، جمہوریت، قانون اور اصولوں کی جنگ بس اسی وقت ہے، جب ان کے اپنے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

پاکستان میں تبدیلی کے لیے پاکستان کے بنیادی انتخابی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں انتخابات صرف امراء کے لیے ہیں۔ صرف وہی کروڑوں خرچ کر سکتے ہیں اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ وہ ایک کروڑ سے دس کروڑ بنائیں گے۔

اپنے مفادات کا خیال رکھنے والے ان جاگیرداروں، وڈیروں اور صنعت کاروں سے تبدیلی کی توقع ایک دیوانے کا خواب ہے۔ پاکستان میں جب تک تعلیم عام نہیں ہوتی، پاکستان کو جب تک کرپشن سے پاک، باشعور اور پڑھے لکھے سیاستدان میسر نہیں ہوتے، جب تک ملک کو ان ایک ہزار خاندانوں کی سیاست سے نجات نہیں ملتی تب تک تبدیلی مشکل ہے، عملی طور پر تب تک نہ تو فوج کی سیاست میں مداخلت کو روکا جا سکتا ہے اور نہ ہی ایک آزاد عدلیہ کا قیام ممکن ہے۔ بقول راحت اندوری:

بن کے اک حادثہ بازار میں آجائے گا

جو نہیں ہو گا وہ اخبار میں آ جائے گا

چور اچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں

کون کب کونسی سرکار میں آ جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).