پاکستان میں دولت کی تفریق کیوں؟


پاکستان کی آزادی سے آج تک، 71 برسوں میں ملک کی اکثریت کی غربت اور اقلیت کی امارت نے قدم جمائے ہوئے ہیں جس سے مجھے بچپن میں پڑھی سنڈریلا کی طلسماتی کہانی کا خیال آتا ہے۔ غریب، محنتی، محبوب، پھٹے پرانے کپڑے پہنے مسکین سنڈریلا جو بادشاہ کی دعوت پر جانے کیلئے جادو کے زور سے نہ صرف خوش لباس و حسین دوشیزہ میں تبدیل ہو جاتی ہے بلکہ شادی کے متمنی شہزادے کا دل بھی چرا لیتی ہے۔ شہزادے کے ساتھ محویت کے عالم میں رقص کرتے ہوئے جب اچانک اس کی نظر گھڑیال پر پڑتی ہے تو یکلخت اسے یاد آتا ہے کہ رات کے بارہ بجنے والے ہیں اور جادو ٹونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ پھر جو وہ گھبراہٹ کے عالم میں سرپٹ دوڑتی ہے تو بوکھلاہٹ میں اس کی خوبصورت جوتی وہیں رہ جاتی ہے اور پھر یہ جوتی ہی تو تھی کہ جو کہانی میں کمال دکھاتی ہے اور غریب سنڈریلا کی قسمت بدلتی ہے۔

پاکستان میں غربت اور امارت کا فرق اتنا زیادہ بڑھتا جا رہا ہے کہ لگتا یہی ہے کہ بے حس امارت کے سحر کو غریب، بھوکے اور مظلوم عوام کی جوتیوں کی طاقت ہی توڑے گی۔ ہر چند کہ غربت کے اعتبار سے پاکستان 177 ممالک میں 146 ویں مقام پر ہے۔ آپ کو بڑے شہروں میں ایسے علاقے ملیں گے کہ جہاں پاکستان کے غریب ملک ہونے کا شائبہ تک نہ ہو گا۔ جہاں کے ”محلات“ میں آپ کو کئی شہزادے اور شہزادیاں نظر آئیں گی۔ عروس البلاد کراچی کو ہی لے لیں۔ جہاں پل کے ایک طرف غربت کی تاریک دنیا ہے تو دوسری جانب کلفٹن اور ڈیفنس جیسے اپر کلاس علاقے ہیں جہاں امارت کی ریل پیل ہے۔ اسی طرح لاہور کے غریب علاقوں کے مقابلہ میں گلبرگ، ڈیفنس، عسکری ٹاﺅن کا علاقہ اور پھر اسلام آباد تو پورے کا پورا ہی کسی اور متمول ملک کا حصہ لگتا ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں کی غربت کا فرق بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ جہاں بنیادی سہولیات بھی میسر نہیں۔

گو آمدنی اور دولت کا بڑھتا فرق (بشمول ترقی یافتہ ممالک) ایک گلوبل عمل ہے۔ مشہور کتاب “The Haves and Have Nots”  کے مصنف برونکو مالانوک (Bronko Mialanovic) کے مطابق 1988-2008ء کے عرصہ میں دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی آمدنی 60 فیصد بڑھی ہے جبکہ غریب کی انتہائی نچلی سطح کے پانچ فیصد افراد کی آمدنیوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اور ورلڈ بینک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی کے مطابق پاکستان کے 1.8 ملین (اٹھارہ لاکھ) افراد کی آمدنی 12.12 بلین (ارب) ڈالرز ہے یعنی 7300 ڈالرز فی کس آمدنی جبکہ ان میں سے امیر ترین 18,000 افراد کی مجموعی آمدنی 1.31 بلین یا 72,700 ڈالرز فی کس ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 18,000 امراءجو کل آبادی کا .001 فیصد ہیں 180 لاکھ انتہائی غریب افراد کے مقابلے میں 180 گنا زیادہ کماتے ہیں۔ آمدنی کا بڑھتا فرق، آمدنی اور دولت کے فرق کے پیمانے (GiniCoefficient) کے مطابق 2013ء میں 0.68 ہے جو 2002ء میں 0.3 تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ آمدنی کا بڑا حصہ جس پر امراء قابض ہیں وہ انہوں نے خود اپنی محنت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ وراثت،  بدعنوانی اور ٹیکس چوری کے نتیجہ میں سمیٹا ہے جو حکومتوں کی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کے سبب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یہ طبقہ وڈیرہ شاہی، سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور بڑے صنعتکاروں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔

غریبوں کی خاموش اکثریت اقلیتوں کے ہاتھوں سالہا سال سے ہر سطح پر استحصال کا شکار ہے جس کی وجہ اقتصادی۔ سماج اور سیاسی نظام ہے کہ جس کے بیج ہندوستان میں حکومت مستحکم کرنے کیلئے برطانوی راج نے ڈالے۔ جنہوں نے مقامی زمینداروں کو جاگیریں، زمینیں اور مراعات دے کر ان کی وفاداریاں خریدیں اور سالہا سال کیلئے ایک استحصالی وڈیرہ شاہی نظام قائم کیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں زرعی اصلاحات نافذ ہوئیں اور جاگیرداری نظام ختم ہوا، جس کا نتیجہ ہے کہ ہم حکومت میں متوسط طبقہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں زرعی اصلاحات کا نفاذ اور وڈیرہ شاہی کا خاتمہ نہ ہوا اور یہی وجہ ہے کہ آج ملکی سیاست ان جاگیرداروں کے ہاتھوں میں رقص کر رہی ہے۔ ملک کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 2/3 (دو تہائی) ممبران کا تعلق انہی وڈیرہ شاہی سے ہے۔

ہمارے ملک کی اکثریت 60 فیصد سے زیادہ دیہی علاقوں میں بستی ہے، جن کے خون پسینے کی کمائی کو یہ پورا نظام ناگ کی طرح ڈس رہا ہے۔ جو پانی کی تقسیم، کھاد، ٹریکٹر کے اجازت نامے اور زرعی آمدنی کو اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ یہی طبقہ ناجائز طاقت کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں اپنی مفاد کے مطابق بل پاس کرواتا ہے، قوانین کو اپنی مرضی سے توڑتا اور موڑتا ہے اور اس ڈر سے کہ تعلیم غریب کو عقل اور سمجھ نہ دے دے یہ اپنے علاقوں کو نہ صرف تعلیم بلکہ دوسری اہم انسانی سہولیات سے عوام کو محروم رکھتے ہیں۔

غربت، بڑھتی مہنگائی، آبادی میں اضافہ کی شرح نے چوری، جرائم، دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔

زرعی کے علاوہ غیر زرعی شعبے، کارخانوں، صنعتوں میں بھی (جو اسی جاگیردار، سول اور فوجی افسر شاہی کی کوکھ سے نکلے ہیں) (مزدوروں کی زندگی اجیرن ہے اور وہ طبی سہولتوں، نکاسی آب، مکان اور پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہیں۔

روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کے اور اپنے کسانوں سے ووٹ لے کر الیکشن میں جیتنے والوں کے دوسرے رخ ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زمینوں کا رقبہ 40,000 ایکڑ ہے جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ آصف زرداری ملکی دولت میں تیسرے نمبر پر ہیں (1.8 بلین ڈالرز) ہیں اور ساتھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد بھی ہیں۔

مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کا نمبر دولت کے لحاظ سے پانچواں ہے جو اپنی صنعتوں (اتفاق اور یونٹ گروپ) کی برکت سے 1.4 بلین ڈالرز کے مالک ہیں۔

ہمارے قومی اور نیشنل اسمبلی میں بیٹھنے والے جاگیرداروں کی دولت عوام کی محنت سے بڑھ رہی ہے اور ملک میں سماجی اصلاحات پر ختم ہونے کے بجائے فوجی ہتھیاروں اور نیوکلیئر منصوبوں پر صرف ہو رہی ہے۔ مثلاً سماجی تحفظات کی سکیم کی مد میں یہ بجٹ 0.04 فیصد ہے تو دفاع کیلئے 17.8 فیصد۔ کھیتوں کھلیانوں میں غربت کی فصل اگ رہی ہے اور اربوں ڈالرز جنگی ہتھیاروں اور لڑاکا طیاروں کی فروخت پر صرف ہو رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان ہتھیاروں کی ریس میں دنیا کا ساتواں ملک ہے جبکہ پاکستان ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں بنگلہ دیش، افغانستان اور نیپال جیسے ممالک کے ساتھ کھڑا ہے۔ یعنی انتہائی نچلی سطح پر۔

پاکستان کی صورتحال کا گراف ابتری کی جانب گامزن تو ہے ہی مگر قدرتی آفات نے اس میں مزید ابتری پیدا کر دی ہے۔ مثلاً 2005ء کا زلزلہ اور 2010ء اور 2011ء کے سیلاب نے غریبوں کی کمر مزید توڑ دی۔ ورلڈ بینک کی 2010-2011ء کی رپورٹ کے مطابق ان تباہیوں کے بعد غربت 70 فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک کے امیر اتنے زیادہ امیر ہوں اور ان کی دولت ملک میں استعمال ہونے کی بجائے باہر کے بینکوں میں جمع ہو رہی ہو اور ملکی معیشت بیرونی قرضوں کی محتاج ہو تو آمدنی کی ایک صورت جو ٹیکسوں کی صورت ہوتی ہے آخر وہ کہاں جاتی ہے؟

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2