جعلی غیرت مندو۔۔۔ تم پھر بھی خاموش ہو ۔۔۔


\"mujahidیہ سب غیرت اور روایت کے نام پر ہوتا ہے لیکن کوئی اس روایت کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ نہیں ہے۔ سولہ برس کی لڑکی کو گاؤں کے بڑوں کے فیصلے پر قتل کیا گیا اور غیرت کو چار چاند لگانے اور یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس علاقے کے لوگ باقی جگہوں کے مقابلے میں زیادہ ’روایت پسند اور مہذب‘ ہیں، بہیمانہ قتل کے بعد مظلوم لڑکی کی لاش کو ایک وین میں رکھ کر آگ لگا دی گئی تاکہ اس کا نام و نشان مٹ جائے۔ اب وزیر اعلی سے لے کر ان کے نائبین تک سرگرم ہیں۔ ملزم گرفتار ہو چکے ہیں۔

ملک بھر کے ٹیلی ویژن اسٹیشنوں اور اخبارات میں یہ خبر جگہ پا رہی ہے۔ ایسے میں پولیس افسران اور سیاسی لیڈروں کے پاس مذمت کا اعلان کرنے کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ لیکن جب ان وحشیوں کی ضمانتیں ہو جائیں گی اور یہ بااثر لوگ دیت اور قصاص کے اسلامی اصول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقتول لڑکی کے مزدور باپ کو ’معاف‘ کرنے پر آمادہ کرلیں گے تو یہی عدالت اور نظام کے یہی رکھوالے خاموشی سے خاندان کے اس فیصلہ کو قبول کر لیں گے۔ پھر ایک نیا سناٹا طاری ہو گا۔ اور اس وقت کا انتظار کیا جائے گا جب ایک نئی عنبرین کو کسی دوسرے علاقے کے باغیرت معززین کسی نئے طریقے سے ہلاک کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

کیا اس ہنگامے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا، ان کے مشیر اور پولیس کے علاوہ بھی کسی کی کوئی آواز سنائی دی۔ کوئی ایسی آواز جو کل تک پنجاب میں تحفظ خواتین کے قانون کو روایت اور شریعت کے برعکس قرار دے کر زمین آسمان ایک کردینے کے دعوے کرتے پھرتے تھے۔ کیا کسی مدرسے، کسی درسگاہ، علم کے کسی منبع اور شریعت نافذ کرنے کے لئے جانیں قربان کرنے کا اعلان والا کوئی جاں نثار بولا۔ کوئی تو سامنے آئے اور بتائے کیا یہی شریعت، ان کی روایت اور اقدار کے مطابق ہے۔ کوئی تو بولے کہ ہم جان سکیں کہ کتنی عنبرین اور صائمہ گمراہ کن عقیدہ اور وقار کی اس قربان گاہ پر نثار کی جائیں گی۔ اب تو کوئی مفتی، کو ئی مبلغ، کوئی عالم، کوئی جبہ پوش اپنے ایر کنڈیشنڈ ’حجرے‘ سے باہر نکل کر رہنمائی کے لئے آمادہ و تیار نہیں ہے۔

غضب خدا کا، نویں جماعت کی ایک طالبہ۔ ایک مزدور کی بیٹی۔ عسرت زدہ، معصوم اور بھولی۔ اس کا جرم کیا ہے؟ اپنی سہیلی کو بڑوں کی مرضی کے خلاف پسند کی شادی کے لئے گھر سے بھاگنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ بھولپن میں سہیلی کی مدد کرنے کی پاداش میں اس کے جسم کو خاکستر کردیا جائے گا اور سہیلی کو تلاش کرکے خاندانی عزت اور وقار کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ کوئی تو سامنے آئے اور بتائے کہ اس نے کیوں کر شریعت کی خلاف ورزی کی تھی۔ مساجد کے منبروں سے عورتوں کے حقوق کے دعوے کرنے والے یہ تو بتادیں کہ کسی لڑکی کو جو اتفاق سے کسی پاکستانی مسلمان کے گھر میں پیدا ہو جائے، محبت کرنے اور اپنی مرضی سے اپنا گھر بسانے کی اجازت نہیں ہے۔

اور نہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل کے مولانا محمد خان شیرانی ہی سامنے آئیں اور بتا دیں کہ ایسی ہر بد بخت عنبرین، صائمہ اور سمیرا کو مارنے والا اسلام کا ہیرو ہوتا ہے اور جو قانون ایسے کسی وحشی کو پکڑنے کے لئے بنایا گیا ہے، وہ غیر اسلامی ہے اور اسے کالعدم ہونا چاہئے۔ یہ سارے جھوٹے جبہ پوش ہی اصل قاتل ہیں جو معاشرے میں عورت کو عزت دینے، اس کی حفاظت کرنے اور اسے خود فیصلے کرنے کا اختیار دینے کے راستے میں سانپ بن کر بیٹھے ہیں۔

اہل پاکستان کو خبر ہو کہ عنبرین اس قبیلے کی آخری مقتول نہیں ہے۔ بہت سی عنبرین قطار بنائے اپنی باری کا انتظار کررہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
5 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments