سنجے دت، نرگس، مادھوری اور ایک پرانا خط


فلم میں ایک کمی یہ محسوس ہوئی کہ سنجے دت کی پہلی بیوی رچا اور ان کی بیٹی ترشالا کا ذکر کہیں نہیں تھا حالانکہ وہی دو بندیاں تھیں جنہوں نے شاید سب سے زیادہ کریٹیکل حالات میں سنجے دت کا ساتھ دیا۔ سنجے کی موجودہ بیوی منیاتا کا رول بھی موجود تو ہے لیکن وہ بھی ادھورا لگا۔ بیوی کے طور پہ سنجے کے جیل جانے کے بعد اس نے کتنے مسائل کا سامنا کیا، کہاں کہاں کیا کچھ دیکھا وہ بھی فلم میں نظر نہیں آتا (ویسے یہ پوائنٹ اوما نے نوٹ کیا اور بڑا جائز کیا، ایک بیوی ہی بیوی کی فیلنگز سمجھ سکتی ہے)، باقی سب کچھ لش ہے۔ اگر یہ فلم آپ نے اس لیے دیکھنی ہے کہ سنجے دت کی زندگی کو کہانی کی شکل میں دیکھ لیں گے تو ایسا نہیں ہے، فلم کا پہلا ہاف زیادہ تر نشہ کرنے والے سنجو پہ فوکسڈ ہے اور دوسرے ہاف میں جیل اور ٹاڈا کیس (دہشتگردی) کو دکھایا گیا ہے۔

پوری فلم میں یا تو سنجے کی پہلی ہٹ مووی راکی کا ذکر ہے یا منا بھائی ایم بی بی ایس کا، باقی سب کچھ خلاص۔ واستو شاید اس وجہ سے نہیں دکھائی کہ اس میں انڈر ورلڈ والا سین آن ہو جانا تھا اور کھل نائیک کا قصہ ہنڈرڈ پرسنٹ مادھوری کے چکر میں نہیں چھیڑا گیا۔ مادھوری کے ساتھ مشہور زمانہ افئیر کی وجہ سے ہی سنجے کے تعلقات پہلی بیوی سے خراب بھی ہوئے لیکن دہشتگردی کیس میں پھنستے ہی مادھوری اڑن چھو ہو گئی۔ مادھوری کے بعد سنجے دت کا ڈپریشن کس قدر شدید تھا فلم میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے اور شاید اس وجہ سے نہیں ہے کیوں کہ سنجے دت کو معلوم تھا کہ مادھوری کی طرف سے اجازت نہیں ہو گی، اور وہ نہیں تھی۔ ایک چھوٹا سا سین بھی بعد میں مادھوری کے کہنے پہ نکلوا دیا گیا اگر چالیس پینتالیس منٹ کی ریل دے دی جاتی اور بعد میں کاٹنا پڑتا تو مکو ٹھپیا گیا تھا۔ یعنی فلم بائیو پک سمجھ کے نہیں دیکھنی، ویسے اے ون ہے!

فلم پہ بات چیت ختم، سنجے دت کے بارے میں ایک اور مضمون کچھ عرصہ پہلے لکھا تھا، فلم دیکھ کے یاد آیا کہ اس میں سے چند چیزیں وہ ہیں جو اب فلم میں دکھائی جا چکی ہیں، موڈ ہو تو پڑھ لیجیے؛

سنجے دت کا اپنی بیمار ماں نرگس کو ایک خط؛

سنجے کسی انٹرویو میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ماں کی موت کے بعد نشے میں پڑا۔ زیادہ سے زیادہ حالات کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر وہ جان چھڑا لیتا ہے۔ ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ کیا نرگس دت کی موت کے بعد اس نے شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کا استعمال شروع کیا تو اس کا یہ جواب تھا؛

“یار ایسا نہیں ہے کہ میں نے ماں کی وجہ سے یہ سب شروع کیا۔ کل میرا کوئی اور عزیز مر گیا تو شراب پی رہا ہوں، آج میرا گدھا مر گیا تو دارو پئیوں گا، یہ صرف جعلی باتیں ہیں۔ نشے کی عادت تبھی پڑتی ہے جب آپ دل و جان سے اس میں پناہ ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ آپ شروع ہو گئے تو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے تکلیف دہ کام ہے۔ میں بارہ برس نشے کا عادی رہا۔ دنیا میں کوئی ایسا نشہ نہیں ہو گا جو میں نے کیا نہ ہو۔ جب میرے باپ مجھے امریکہ لے کر گئے اور علاج سے پہلے میرے سامنے لسٹ رکھی کہ میں ان تمام نشوں کو ہائی لائٹ کر دوں جو میں نے کیے ہیں تو اس میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو میں نہ کر چکا ہوں۔ ڈاکٹر میرے باپ سے بولا، آپ انڈیا میں کس قسم کی خوراک کھاتے ہیں؟ اس قسم کے نشوں کے بعد تو اسے اب تک مر جانا چاہئیے تھا۔ میں نے نشہ اپنی فیملی کی وجہ سے نہیں چھوڑا، میں نے ترک کیا کیوں کہ یار میں نکلنا چاہتا تھا۔ مجھے وہ زندگی نہیں چاہئیے تھی۔ جب آپ نشہ چھوڑنا شروع کرتے ہیں اور ایک مرحلہ تو وہ ہوتا ہے جس میں جسم بالکل ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، ہر حصے میں درد ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ مشکل پارٹ تب آتا ہے جب آپ ٹھیک ہو جاتے ہیں، جب آپ کا دماغ کہتا ہے، اب تو تو ٹھیک ہو گیا ہے، چل ایک بار پھر سوٹا مارتے ہیں۔ یہاں آپ قوت ارادی سے ہی بچ سکتے ہیں۔”

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain