کیا ہمیں اقبال کو پھر سے پڑھنے کی ضرورت ہے؟


یہ ایک باخدا آفاقی تہذیب کا رومانوی خواب ہے جہاں اقبال ہمیں جدید زبان میں کچھ نئے اشارے کرتا نظر آتا ہے۔ یقیناً یہ اشارے مبہم ہیں لیکن ان کی معنی خیزی میں کوئی شک نہیں۔ اقبال ہر اس شخص کے دل کے قریب ہے جسے اپنے کشفِ ذات سے باہر جوابات پر کچھ خاص اصرار نہیں اور صرف سوالات میں دلچسپی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ رومانوی خواب مشرق و مغرب کے پردۂ چشم میں تمیز نہیں کرتا۔

زمانے کا چلن یہ ہے کہ خود کو خالص تعقل پسند ماننے والے ذہن کے آگے مذہبی سماجیات سے جڑے سوالات تو بہت معقول سمجھے جاتے ہیں لیکن مذہبی مفروضوں کا عیاں کرنا ذرا بچگانہ محسوس ہوتا ہے۔ انہی مفروضوں میں ایک اہم مفروضہ یہ ہے کہ یہ تمام کائنات، اس کے اندر انسان کی ہستی اور خارج میں حقیقت مطلق کی تفہیم ایک بامعنی کُل کے طور پر ممکن ہے اور انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اس کے بارے میں کوئی واضح تصور قائم کرے۔

یہاں اقبال کے ساتھ سوالوں کی تپتی زمین پر قدم ملا کر چلنے میں ایک قربانی ناگزیر ہے۔ وہ روایتی تصورِ خدا ہو یا روایتی تصورِ عبدیت، اقبال کے سوالات اس کے مفروضوں سے متفق ہونے والے قاری کو ضرور اپنی جگہ بدلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ یہ مفروضے صریحاً غلط ہوں لیکن ان کو غلط ثابت کرنے کے سفر میں ایک قاری کو نفسیاتی طور پر بھی اپنی راہ سے اس طرح ہٹنا پڑتا ہے کہ اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا۔

ہمارے غیرمذہبی دوستوں کے لئے تو شاید وہ مفروضے ناقابلِ اعتبار ہوں لیکن دوسری طرف روایتی مسلمان کا ایمان بھی ضرور متزلزل ہوتا ہے اور وہ کسی گڑبڑ کے ڈر سے اقبال کے تمام علمی و ادبی کام کو ایک رنگ برنگ پھل دار درخت سمجھ کر اس سے ذائقے اور موقع کی مناسبت سے پھل توڑتا ہے۔ اسی لئے ‘ابلیس کی مجلسِ شوریٰ’ اور ‘خطاب بہ نوجوانانِ اسلام’ جیسے میٹھے اشجار سے تو تقریباً سبھی پھل توڑتے پائے جاتے ہیں لیکن ‘تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ’کے تُرش پھل تمام حلق نہیں نگل سکتے۔ سید سلیمان ندوی سے ‘تشکیل جدید’ کی بابت منقول ہے کہ

”مسلمانوں کا اصل انحطاط اور ذلت کی آخری حد یہی ہے کہ انھیں اپنے عروج کے لیے، اپنے آپ کو سنبھالا دینے کے لیے سہارا کہاں سے ملے گا؟ اللہ سے، اس کے رسول سے، اپنے نظریۂ حیات سے نہیں، بلکہ یورپ کے اصولوں سے، تجربیت سے، سائنس سے، عقلیت سے، معتزلہ سے، نطشے، برگساں کے سپرمین اور وجدان سے۔ یہ پستی کی انتہا ہے۔ اسی لیے علما نے خطبات اقبال مرحوم کی شدید مخالفت کی، کفر کے فتوے بھی دیے گئے۔ یہ اقبال مرحوم کی سب سے بڑی غلطی ہے اور ناقابل معافی غلطی کہ مغرب کی سائنس اور فلسفے کو منہاج حقیقی بنا کر دین کی تعلیمات کو اس پیمانے پر جانچا جائے نہ کہ دین کو اصل، حقیقی اور درست منہاج سمجھ کر مغرب کے فکروسائنس کو اس پیمانے سے جانچا جائے۔ ‘ (بحوالہ: خالد جامعی، “ جریدہ ”، شمارہ 33 /حوالہ بشکریہ اجمل کمال)

یہ سید سلیمان ندوی کی ایک ہم عصر کے طور پر اقبال کی تفہیم ہے اور اس میں آج تک ایک بہت بڑا مذہب پسند طبقہ ان سے متفق ہے۔ ایسے میں کون اتنا دلیر ہے کہ واقعی اقبال سے کم از کم اس کے بنیادی سوالوں اور فلسفیانہ مسائل کے خدوخال تک متفق ہو؟ غیر مذہبی دوست تو خیر ابتداء ہی سے ایک الگ راہ کے مسافر ہیں لیکن ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مذہب پسند دوست بھی مستقبل قریب میں اس فکری جست بلکہ روایت سے بغاوت پر خود کو آمادہ کر سکیں۔

یوں اقبال کو کسی خطِ مستقیم پر رکھا جائے تو ایک جانب وہ متنوع غیر مذہبی مفکرین ہیں جو اقبال کے تناقضات کو سرقہ زدہ فلسفیانہ ملغوبہ اور فکری ابہام سمجھتے ہیں اور دوسری جانب سید سلیمان ندوی جیسے علماء و صالحین جو مسلمانوں کے ریوڑ کو فکری صحرا میں بھٹکنے نہیں دینا چاہتے۔ تیسری جانب پھل توڑنے والے بچے ہیں سو بچوں کا کام تو کھانا پینا اور مزے اڑانا ہے۔ وہ بچے طالبان کے بھی ہو سکتے ہیں اور سرکاری اسکولوں میں مطالعہ پاکستان پر پلنے والے بھی۔

ہمارے نزدیک یہاں مسئلہ اقبال سے روایتی الفت یا روایتی بغض کا نہیں بلکہ اس کی مجموعی فکرسے اتفاق یا اختلاف کا ہے۔ تاریخ فکر میں کچھ مخصوص ذاتی رجحانات تاریخی سیاق و سباق سے باہر اپنی خالص فکری اہمیت کھو دیتے ہیں اور یا تو درسی تناظر میں زیرِ بحث آتے ہیں یا پھر منچلے اور غیرسنجیدہ فکری طبائع کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ دونوں جہتوں کی ثقافتی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں اور ہر ایک کو اپنی دلچسپیاں منتخب کرنے کا حق ہے لیکن انہیں کسی علمی تناظر میں قابلِ وقعت سمجھنا ذرا بحث طلب ہے۔

مثال کے طور پر عصرِ حاضر میں سنجیدہ قارئین کے لئے ہائیڈیگر کا وجودی فلسفہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے ہے یا اس کی نازی سیاست؟ آج روسو کا مجموعی فکرو فلسفہ اہم ہے یا اس کے خواتین کی تعلیم کے بارے میں نظریات؟ مخصوص مزاج اور نفسیاتی میلانات ضرور فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن تاریخ کا پہیہ گھوم جانے کے بعد ان کی حیثیت بس سوانحی دلچسپیوں اور شخصیتی خاکوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ وہی خالص فکری مواد بچ رہتا ہے جو اپنے اندر مستقبل کی جانب سفر کے اشارے رکھتا ہو۔ ہماری رائے میں شاید اقبال کی مجموعی فکرمیں بھی بنیادی اہمیت کی حامل وہی جہت ہے جو تصورِ انسان، تصورِ کائنات اورتصورِ خدا کے تین ستونوں پر توازن کی مسلسل تلاش سے عبارت ہے۔

آج ہمیں مطالعۂ اقبال کے حوالے سے صرف یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے اپنے مفروضوں سے کچھ دیر کے لئے دستبردار ہو کر اقبال کی شاعری اور نثر کو ایک مربوط اکائی کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کے سوالوں کو اہم مان سکتے ہیں؟ لیکن سوالوں کو مرکزی اہمیت دینے کے لئے جوابات پر اصرار کو پسِ پشت ڈالنا پڑتا ہے، مشرق و مغرب کی دوئی سے نکل کر انفس و آفاق میں جستجو کی کچھ نئی منازل طے کرنے کے لئے کمر کسنا پڑتی ہے، اور انسان کو اس طرح کائنات کا مرکز و محور ماننا پڑتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنی تقدیر میں شراکت داری کے لئے تصور سازی کے قابل ہو۔ گمان نہیں ہوتا کہ عمومی طور پر برصغیر پاک وہند کی مسلم فکر فی الحال اس دلیرانہ فکری جست کے ساتھ اقبال کے ساتھ کھڑے ہونے کے قابل ہے۔

مثال کے طور پر انسان کا کائنات پر نظریں جمائے، فولادی ہاتھوں سے فطرت کو قابو میں کرتے ہوئے زمین کو تہہ تیغ کرنا کوئی عام رویہ نہیں جو کسی فطری ارتقاء کا نتیجہ ہو۔ اس کا تعلق سراسر ایک کونیاتی خلطِ مبحث کا نتیجہ ہے۔ تو پھر کیا اس الٰہیاتی مفروضے کو خالص تعقلی بنیادیں فراہم کرنا ممکن ہے کہ انسان کو دوسرے انسان اور کائنات سے غیرمشروط محبت کے لئے ایک خالق کا تصور قائم کرنا ضروری ہے؟ اور اگر ایک یہ فرض کر لیا جائے تو پھر حقیقتِ مطلق کی خلاقیت کے اس تصور کا تجربہ کیوں کر ممکن ہے؟ کیا یہ تجربہ حسی ہو گا یا تعقلی یا پھر ازمنۂ قدیم کے انسان کی طرح سرّی؟

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments