انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان مگر نہیں ہوگا


جنرل مشرف کے ایک وفادار معتمد میرے بھی ذاتی دوست ہوا کرتے تھے۔امریکی خواہش پر سعودی عرب کی معاونت سے نواز شریف کو جب سن 2000ءمیں کلنٹن کے وائٹ ہاﺅس چھوڑنے سے قبل جیل سے نکال کر پورے خاندان سمیت جلاوطن کردیا گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مجھے رات کے کھانے پر بلالیا۔ وہاں پہنچا تو محسوس ہوا کہ یہ کوئی عام دعوت نہیں بلکہ ”جشنِ نجاتِ نوازشریف“ منایا جارہا ہے۔

ذاتی طورپر مجھے نواز شریف سے نہ ہمدردی تھی نہ نفرت۔ اس جشن میں شریک ہونے کے بجائے لہذا محض صحافی بن کر بیٹھارہا۔ اس محفل میں چند ایسے لوگ بھی شریک تھے جو ہماری ریاست کے چند دائمی اداروں کے لئے انٹیلی جنس کے ذرائع سے جمع ہوئے مواد کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کے زائچے تیار کیا کرتے تھے۔ اتفاق سے ایسے ہی ایک صاحب میرے دائیں ہاتھ بیٹھے تھے اور بارہا مجھ سے یہ جاننے کی کوشش کرتے رہے کہ آیانواز شریف مستقبل قریب نہیں بلکہ بعید میں بھی پاکستان لوٹ کر سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔

پوری دیانت داری سے میں نے انہیں بتایا کہ مجھے نواز شریف یا ان کے قریبی ساتھیوں تک رسائی حاصل نہیں۔ مشاہد حسین سید سے صحافت کی وجہ سے گہرا رشتہ استوار ہوا۔ چودھری نثار علی خان سے بھی تفصیلی گفتگو کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ وہ دونوں مگر ان دنوں نظر بند تھے۔نواز شریف کیا سوچ رہے ہیں اس کے بارے میں غور کرنے کو لہذا میرے پاس کوئی ٹھوس بنیاد میسر نہیں۔

میرا جواب سن کر وہ صاحب بہت مایوس ہوئے۔ انہیں گماں تھا کہ ”عام رپورٹروں“ کے برعکس میں کتابیں وغیرہ بھی پڑھتا ہوں اور عالمی سیاست پر نگاہ رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ مجھ ایسے شخص کو یاد رکھنا چاہیے تھا کہ سعودی عرب برطانیہ جیسا ملک نہیں جہاں تیسری دنیا کا کوئی سیاستدان جلاوطنی کے دنوں میں بھی اپنے ملک کی سیاست سے کسی نہ کسی صورت رابطہ برقرار رکھ سکتا ہے۔

سعودی عرب جلاوطنی کے بعد سابقہ حکمران ”یوگنڈا کے عیدی امین کی طرح گم نام ہوجاتے ہیں۔ سیاسی حوالوں سے Dead Wood۔

عیدی امین والی مثال ان صاحب نے بلند آواز میں بڑے ڈرامائی انداز میں پیش کی تھی۔ ان کے اندازِ سخن نے پوری محفل کی توجہ حاصل کرلی۔نواز شریف کو ان کی جانب سے عیدی امین ٹھہرانا لوگوں کو بہت پسند آیا۔ Cheersکے دو تین راﺅنڈ کے بعد کھانا لگ گیا۔

آج سے دس روز قبل ایسے ہی ایک شخص سے دوستوں کی ایک اور محفل میں ملاقات ہوگئی۔انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے دو Breaking News سنائیں۔ پہلی ”خبر“ یہ تھی کہ نواز شریف پاکستان واپس نہیں آرہے۔ شہباز شریف مبینہ طورپر اپنے بھائی کی وطن سے عدم موجودگی کو ”یقینی“ بنانے کے بعد اب قومی حکومت کے حوالے دے کر خود کو ”اداروں“ کا احترام کرنے والا ثابت کررہے ہیں۔

ان کے اس رویے پر لیکن فی الوقت اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ نواز شریف کی ”باقیات“ ابھی بھی ”گند“ ڈال دیتی ہیں۔ ایسی ہی باقیات کی وجہ سے چودھری نثار علی خان کے حلقے کو کھلا چھوڑنے کے بجائے بالآخر ایک شخص کو ان کے مقابلے میں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا گیا۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑائے بغیر شہباز شریف خود کو قابلِ اعتبار نہیں بناسکتے۔

شہباز شریف کی ”مجبوریوں“ کے ذکر کے بعد دوسری Breaking News مجھے ان صاحب نے یہ دی کہ نون کے لاحقے والی مسلم لیگ بالآخر جولائی میں ہونے والے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردے گی۔میں عموماََ ”باخبر“ لوگوں سے بحث کرنے سے گریز کرتا ہوں۔

بطوررپورٹر ایسے لوگوں کی بات سننا میری جبلت میں شامل ہے۔ ان دنوں مگر ٹی وی کا اینکر بھی بن گیا ہوں۔ لکھنے کے بجائے بولنے کے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔اس وجہ سے اپنی قوتِ گویائی پر مان ضرورت سے زیادہ ہوگیا ہے۔ ضبط نہ کرپایا اور کہہ دیا کہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد سے کوئی ذی
ہوش سیاست دان انتخابات کے بائیکاٹ کا کبھی سوچے گا بھی نہیں۔

مرحوم غلام مصطفےٰ جتوئی سے میری اس ضمن میں اکیلے میں کئی بار بات ہوئی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی 1985والے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بارے میں افسوس کا اظہار کرتی رہیں۔ مسلم لیگ تو ویسے بھی جماندرو Electables کی جماعت ہے۔ نواز شریف یا شہباز شریف نے جولائی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو اس جماعت کے ٹکٹ پر کھڑے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی بے پناہ تعداد اپنی قیادت سے بغاوت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گی۔

”باخبر“ شخص کو میرا جواب پسند نہ آیا۔ ربّ کریم کی مہربانی کے سبب میں جس دعوت میں موجود تھا اس کے میزبان اپنی سرکاری ملازمت کے دنوں میں بہت تگڑے اور دھانسو افسر شمار ہوتے تھے۔ وہ مجھے اپنی اولاد کی طرح لیتے ہیں۔ میرے پھکڑپن سے ناراض ہونے کے بجائے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انہوں نے میرے جواب میں ”وزن“ دیکھتے ہوئے اس کی تائید کردی۔

اس دعوت کے عین ایک دن بعد مگر میڈیا میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ نواز شریف سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ جولائی 2018کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے منصوبے بنارہی ہے۔ بات اس حد تک پھیلی کہ شہباز شریف صاحب میرے بھائی سلیم صافی کو دئیے ایک انٹرویو میں اس کی تردید کومجبور ہوگئے۔
میں آج بھی اصرار کررہا ہوں کہ جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی قیادت میں کارِ احتساب میں مصروف ادارے کی تمام تر کاوشوں کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ جولائی 2018کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کرے گی۔

انتخابی عمل میں حصہ لینے کی وجہ سے بلکہ انہیں قمرالاسلام جیسی گرفتاریاں نصیب ہوئی ہیں۔ ایسی گرفتاریوں سے انہیں یہ بیانیہ مرتب کرنے میں آسانی ہورہی ہے کہ وطنِ عزیز کے کئی مقتدر حلقے انہیں ہر صورت ان انتخابات میں شکست دلوانا چاہ رہے ہیں۔

دریں اثناءاحتساب والے صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے شہباز شریف صاحب پر بھی ”مہربان“ ہوگئے تو مذکورہ بیانیے کو تقویت دینے کے لئے مزید مواد میسر ہوجائے گا۔ انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان مگر پھر بھی نہیں ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).