متنجن ، زردہ اور نثری نظم کی کھچڑی


انسان سے بڑا وائرس کوئی نہیں جس نے اپنی توسیع پسندانہ دیوانگی کے شکنجے میں پھنس کر اتنے پنجرے بنا لیے کہ خود بھی انہی میں قید ہو کر رہ گیا! یوں تو اِس قید کے مختلف نام اور مختلف چہرے ہیں مگر سماج، نظام اور ڈسپلن اِس کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ظالمانہ شکلیں ہیں ؛ شاعری اِس زنداں سے نجات کا ایک وسیلہ بن کر سامنے آئی تھی، المیہ مگر یہ ہوا کہ اِسے بھی ڈسپلن میسر آگئے (اور یاد رہے ہر سسٹم اپنے ڈکٹیٹر ساتھ لاتا ہے)۔

زندگی نہایت بے ساختہ اور برجستہ ہے۔ شاعری اگر محض زندگی کی نقالی بھی تھی تو اِسے بے ساختہ اور برجستہ ہونا چاہیے تھا، تاہم اوزان کے سسٹم نے خیال کے فطری بہاؤ کو سختی سے کنٹرول کرتے ہوئے شاعری کو ایک ہنر میں تبدیل کر دیا اور زندگی کی بلٹ ٹرین زن سے آگے نکل گئی ؛ نثری نظم کا کمال یہ ہے کہ اِس نے اوزان کے نظام کو حرفِ آخر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا!

اپنے تئیں میں نثری نظم کا ایک سنجیدہ قاری ہوں تاہم خود احتسابی کاکوئی کڑا لمحہ میسر آجائے تو اپنے دعوے کی صداقت پر بضد رہنے کے بجائے بغلیں جھانکنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ نثری نظم اور دیگر اصناف شاعری سے جڑے مباحث اتنے پیچیدہ اوراد ق ہیں کہ اِن کی گتھیاں سلجھانا مجھ جیسے کوتا ہ فہم کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ سے سونا بنانے کے مترادف ہے، لہٰذا جواد کی نثری نظموں کا مجموعہ بعنوان ”متنجن‘‘ موصول ہوا اور بذریعہ میسج مطلع کیا گیا کہ اِس کا دیباچہ مقصود ہے تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ ایک عالم بد حواسی میں کئی بار مسودہ پڑھ ڈالا۔ واپس اپنی ناقدانہ بصیرت پر نظر کی تو بے اختیار چلّو پھر پانی یاد آیا!

حق تو یہ بنتا تھا کہ ایک مکمل تاریخی پس منظر میں اصنافِ شاعری کا مطالعہ کرتا اور پھر ایک محقق کی طرح زندگی کے کڑے معیار پر اُن کی باہمی جدلیات کو پرکھتے ہوئے عصرِ حاضر میں ہر ایک کے جواز کا تعین بھی کردیتا مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ، آسان طریقہ یہ دکھائی دیا کہ گوگل کھولوں اور لفظ’’ نثری نظم‘ ‘ ٹائپ کروں، پھر جو بھی مواد ملے اسے من و عن کا پی کروں، تھوڑا کتاب کے بارے میں لکھوں اور دیباچہ ریڈی!

کافی دیر تک دونوں آپشنز پر غور کیا!
ایک جانب حق اور ضمیر کی آواز تھی تو دوسری جانب مسئلے کا فوری اور دستیاب حل تھا!
الجھن بڑھتی گئی۔ جب اونٹ کسی بھی کروٹ نہ بیٹھا تو بالآخر جیبیں ٹٹولیں، پانچ روپے کا سکہ برآمد کیا اور ٹاس کرنے کا فیصلہ کیا!
ضمیر کی آواز ’پانچ روپے والی سائیڈ‘ کو دی گئی اور تن آسانی ’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چاند‘ کے لیے مختص ہوئی۔
کئی مرتبہ سکہ اُچھالا مگر قسمت نے یاوری نہ کی (ہر دفعہ ضمیر ہی ٹاس جیتا)۔

ایک بار تو جی میں آیا کہ ضمیرمیاں کو لوری وغیرہ دے کر سلا دیا جائے، لیکن کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب، لہٰذا مزید دو مرتبہ سکہ اُچھالنا پڑا، پھر کہیں جا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چاند طلوع ہوا۔
دامن پہ کوئی چھینٹ تھی نہ خنجر پہ کوئی داغ، پورے اطمینان قلب کے ساتھ انٹرنیٹ آن کیا تو ایک نئی آزمائش بانہیں پھیلائے کھڑی تھی! محترم وِکی پیڈیا پر بعد از بسیار کوشش، نثری نظم کے عنوان سے کوئی لکھت نہ مل پائی ؛ البتہ متنجن اور زردے کے حوالے سے ہر سرچ انجن پر پندرہ ہزار سے زائد صفحات موجود تھے۔

پہلے تو ادب کی حالتِ زار پر رونا آیا۔ پھر یہ سوچ کر اطمینان ہوا کہ کم از کم اِس بہانے متنجن اور زردے کی فنی اور فکری جزئیات کو جانچنے اور پرکھنے کا ایک سنہری موقع معدودے چندکلکس کی دُوری پر ہے!

وِکی پیڈیا نے توضیح کی کہ زردہ، جنوبی ایشیا کی ایک روایتی سویٹ ڈش ہے جو اُبلے ہوئے میٹھے چاولوں، دودھ، چینی، بادام اور زعفران سے تیار کی جاتی ہے جبکہ اِس دوران چاولوں کو مالٹے رنگ کی آمیزش سے یکساں طورپر زرد کر دیا جاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ متنجن زردے کی ہی ایک قسم ہے جس میں مربوں، مٹھائیوں، گوشت اور چند دیگر اجزاء کا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس کے بعد انواع و اقسام کے فوڈ کلرز چھڑک دیے جاتے ہیں تاکہ چاول ہر ممکن حد تک رنگ برنگے ہو جائیں۔

مندرجہ بالا متن کوڈی کنسٹرکٹ کیا تو منہ میں پانی بھر آیا ؛ اِس سے پہلے کہ رال بھی ٹپکنے لگتی، ذہن کے نہاں گوشوں میں ایک دھماکا سا ہوا۔ اُس لمحے مجھے پہلی بار ادراک ہوا کہ آخر وہ کون سا مرکزی نقطہ ہے جس نے جواد کی ساری نظموں کو اپنے پہلو میں سمیٹا ہوا ہے۔
۔ O۔

اٹھارویں صدی کے فرانس اور جرمنی میں ’’ الیگزینڈرین‘‘ نامی ایک صنف کو عروج حاصل ہوا جس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا ہر مصرعہ بارہ ارکان پر مشتمل ہوتا تھا جب کہ چھٹے اور ساتویں رکن کے بیچ میں ایک سکتہ رکھ کر مصرعے کو دو لخت کر دیا جاتا تھا ؛ چارلس بودلیئر پہلا شاعر تھا جس نے الیگزینڈرین کی عظمت کو جھٹلاتے ہوئے اصرار کیا کہ اوزان کی ڈگڈگی پر ناچے بغیر بھی شاعری کی جاسکتی ہے، بعد ازاں اُس نے نثری نظمیں لکھیں اور اظہار کی ان بلندیوں کو چھو کر دکھایا جس کی اِس سے پہلے کوئی نظیر نہ ملتی تھی۔

نثری نظم نے انقلابِ فرانس کی گود میں جنم لیا اور بغاوت کے الوہی ترانے میں ڈھل گئی۔ جس طرح انقلابِ فرانس نے فرد کو بادشاہت، جاگیرداری اور نوابیت کی زنجیروں سے نجات دلانے کی سعی کی تھی، بالکل اس طرح نثری نظم نے شاعر کو خارجی پیمانوں سے آزاد کرنے کا بار اُٹھایا۔ تاہم یہ مادرپدر آزادی، ادبی اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ پسند نہ آئی۔ پہلے تو نثری نظم کو شاعری تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا گیا۔ بعد میں جب اُس کی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا تواسے ایک نسبتاً عامیانہ اور غیر اہم صنف کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ کافکا، آسکروائلڈ اور میلارمے جیسے عظیم لکھاریوں نے اپنی فکری انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے نثری نظم کا دامن خوب وسیع کیا، مگر وقت گزرتے کے ساتھ نثری نظم بھی ”مشرف بہ روایت‘‘ ہونے لگی۔ بودلیر نے چونکہ ایک اربن سماج میں فرد کی گھمبیر تنہائی اور اس کی بدصورت زندگی کو پینٹ کیا تھا لہٰذا یہ قیاس کر لیا گیا کہ نثری نظم کے لیے اربن، گرے شیڈڈ اور شدید ہونا لازمی ہے۔ یہاں سے ایک غیر تخلیقی رویے نے جنم لیا اور چند شعراء کو چھوڑ کر باقی سب بودلیر کو ہی دُہراتے رہے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اظہار کے غیر معمولی امکانات سے معمور ایک صنف، سیاہ حاشیوں کی خامہ فرسائی بن کررہ گئی۔
۔ O۔

” متنجن ‘‘ جواد کی پہلی کتاب ہے اور بتیس (32) بلاعنوان نثری نظموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا عنوان بظاہر مضحکہ خیز لیکن نہایت بامعنی اور بھرپور ہے۔ یہ عنوان دراصل اس بات کی توضیح ہے کہ جواد کی نظمیں زردے کی طرح یکسانیت اور یک رنگی کا شکار نہیں بلکہ ان میں متنجن کی طرح ہر رنگ کا سواد ہے۔ پھر نظموں کو بلاعنوان چھوڑ کر قاری کو جزو کی جزئیات سے آزاد کر دیا گیا ہے تاکہ وہ ایک نسبتاً بڑی اکائی میں جھانک کر دیکھ سکے (شاعر نے اس بات کا مکمل اہتمام کیا ہے کہ قطرے میں دریا ڈھونڈنے کے بجائے دریا میں چھلانگ لگا کر پانی کی منہ زور لہروں سے کھیلا جائے)۔

” متنجن ‘‘ کی شاعری سادہ، سنبھلی ہوئی اور سٹریٹ فاروڈ ہے جو کسی بڑے فلسفے کو جنم دینے کی خواہش سے عاری محسوس ہوتی ہے تاہم اس میں زندگی کا عنصراپنی تمام خوبصورتیوں اور بدصورتیوں کے ساتھ موجزن اور رواں ہے۔ جواد نے Eclectic اپروچ سے کام لیتے ہوئے مختلف موڈز اور شیڈز کو اکٹھا کر دیا ہے جس کے باعث اُس کی نظموں میں ایک خاص طرح کی تازگی اور توانائی دَر آئی ہے۔

بلاشبہ جواد کے پاس موڈز کی ایک بڑی ورائٹی موجود ہے لیکن شرارت، چھیڑ چھاڑ اور تمسخر اُڑانے کے رجحان کو اس کی شناختی علامت یا ٹریڈ مارک قرار دیا جائے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہ ہوگا۔ ” متنجن ‘‘ کی کچھ نظموں میں یہ نیم ظریفانہ اور ملامتی رنگ اتنا غالب ہوجاتاہے کہ ان میں امریکن ریپ شاعری کا چسکا اور دیسی ہجو کا تڑکا، دونوں بیک وقت اور بے تحاشا دیکھے جاسکتے ہیں۔
چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

تم مسلسل فیل ہوتی ہو
تمہاری آنکھوں میں کوئی طلسم نہیں
تم سستا فیشل کراتی ہو
تمہارے پرانے عاشق تبلیغی جماعت میں شامل ہو چکے
تم کسی رنگ میں نہیں جچتی
تمہیں پلٹ کر دیکھنا نہیں آتا
تم نقاب پہن کر اوورایکٹنگ کرتی ہو
تمہیں بچے ڈائن کہتے ہیں
اور
کوہ قاف کے سپنے دیکھنا چھوڑ دو
تم نہیں جانتی
تمہارے باپ نے تمہارے لیے
کنویں کا ایک مینڈک ڈھونڈ رکھا ہے
[از نظم نمبر8]

مرتے ہوئے میں نے
کراس روڈز کا کالا کوٹ پہنا تھا
جسے تم لنڈے کا مال کہتی تھیں
[از نظم نمبر4]

اس نے الیکٹرانک ترازو خرید لیا
غزل میں وزن اب برابر رہتا ہے
ہرن نے احتجاجی پوسٹ چھپوا لیے
”میرا غزل سے کوئی تعلق نہیں‘‘
[از نظم نمبر30]

جواد کی بعض نظموں میں روایتی گرے شیڈ بھی ملتا ہے مگر اِس میں وہ تندی، تیزی، بیزاری اور قنوطیت منقود ہے جو نثری نظم کا خاصہ (بلکہ اثاثہ) سمجھی جاتی ہے چناں چہ اُس کی ڈارک نظمیں بودلیئر، زاہد امروز اور ساحر شفیق کی روایت کو فالو کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

یہ درست ہے کہ جواد خود کو ایک زہر آلود اور قہربارشاعر کے طورپر ممتاز نہیں کر پایا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ زندگی کے سفاک حقائق اس کی نگاہوں سے یکسر اوجھل ہیں۔ معاملہ دراصل یہ ہے کہ جواد کے تخلیقی مزاج میں فیوژن کی ایک شدید لہر مسلسل کار فرما ہے جس کا دائرہ کار اس کی نظموں کی ساخت سے پھیلتا ہوا اُن کے متن اور مواد تک محیط ہوجاتا ہے جس کے باعث ہولناک المیہ، طنز اور مزاح کے ساتھ اختلاط پذیر ہو کر بلیک کامیڈی کی شکل اختیار کر جاتا ہے (بعض مقامات تو ایسے ہیں جہاں اُس نے ڈیجیٹل علامتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس المناک طربیے کا بصری تاثر حیران کُن حد تک بڑھا دیا ہے)۔ میں سمجھتا ہوں یہ تکنیک ایک پوسٹ ماڈرن عہد کے حقائق کو مجسم کرنے کے لیے روایتی گِرے شیڈ کی نسبت زیادہ کاٹ دار اور موثر ثابت ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے کی ایک نمائندہ نظم ملاحظہ ہو:

ٹھاہ۔ پہلی گولی!
وہ مسکرایا(۔ :
ٹھاہ۔ دوسری گولی!
وہ مزید مسکرایا(۔ : (۔ :
ٹھاہ۔ تیسری گولی!
وہ مسکراتا رہا (۔ : (۔ : (۔ :
ٹھاہ۔ چوتھی گولی!
وہ مسکراتے مسکراتے گر گیا (۔ : (۔ : (۔ : (۔ :
اوئے اتنی گولیاں کیوں ماریں؟
پتہ نہیں!
سالا مسکرائے جا رہا تھا
[نظم نمبر33]

میں ہمیشہ اس مخمصے کا شکار رہاکہ آخر نثری نظم میں ایسا کون سا تکنیکی سقم ہے جس کے باعث محبوب کی بے وفائی، ستم گری اور ڈھٹائی پر تو ہزاروں تشبیہات اور استعارے دستیاب ہوجاتے ہیں تاہم اُس کے حسن اور جمال کی مدح میں ایک آدھ سطر بھی ڈھونڈنی پڑجائے تو دن میں تارے نظر آجاتے ہیں۔ اچھا ہوا کہ جواد کے انحرافی ذہن نے اس الجھن کو ہمیشہ کے لیے رفع کر دیا۔ جواد نے نثری نظم کی ہنڈیا میں رومان کا سرخ رنگ ڈال کر اِسے ایک نیا ذائقہ سونپ دیا ہے جو کہ نہ صرف قابلِ ستائش بلکہ ہزار ہا ممکنات کی جانب ایک لمبی چھلانگ بھی ہے۔ آخر کار جواد نے واضح کردیا کہ نثری نظم صرف گمشدہ، ہاری ہوئی یا زخمِ رسیدہ محبتوں کی لاحاصل تکرار نہیں ہے بلکہ شاعر چاہے تو مجبوب کا سراپا یا فطرت کی نیرنگی ایسے نویکلے اور اَچھوتے آہنگ میں بیان کر دے کہ غزل بھی شرما اُٹھے۔ مثال کے طور پر:

تم کیا چیز ہو؟
جواب میں اس نے
متنجن بھری پلیٹ مجھے تھما دی
میٹھے میٹھے نینا تھے اُبلے انڈوں میں
گال گلابی رَس گلے
چاول کے دانے پلکوں جیسے
اک کشمکش لگی تھی ماتھے پہ
چارامریکن باداموں نے
لبوں کا نقشہ کھینچا تھا
[از نظم نمبر29]

” متنجن‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جواد نے نثری نظم کے اندر چھپے اظہار کے غیر معمولی جوہر کو پہچانتے ہوئے، روایت کی اندھا دھند تقلید سے گریز کیا ہے (حتیٰ کہ جہاں اُس کے قدم لڑکھڑائے ہیں وہاں بھی کولہو کے بیل اور رہٹ والی علامت، تجسیم کے عمل سے کوسوں دُور کھڑی ہے)۔ تاہم اُس کی زبان ابھی کچھ ناپختہ ہے اور بسا اوقات اسے نظم کا کلائمکس سنبھالنے میں دُشواری محسوس ہوتی ہے۔ اگر وہ ان خامیوں کو دُور کرلے تو اُس کی نظموں کا سکوپ حیران کُن حد تک بڑھ سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).