ووٹر کو ووٹ دینے دو


اس بار عام انتخابات سے پہلے عجب صورتحال ہے، ہر طرف ایک عجیب پریشانی، اور بے چینی اور خوف کی فضا بنی ہوئی ہے۔ جہاں جاو، ووٹر، عام آدمی یہ پوچھنے یر مجبور ہے کہ کیا عام انتخابات ہونگے یا نہیں؟ ہوئے تو کون جیتے گا؟ نون لیگ کو انتخابات میں حصہ لینے دیا جائے گا یا نہیں؟ کیا آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی معاہدہ کر لیا ہے یا این آر او لے لیا کہ اور وہ صدر بن جائیں گے تاکہ نیب کے چنگل سے بچ سکیں۔ یہ بھی سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا ایم کیو ایم کراچی سے جیت سکے گی؟ اگر جیتے گی تو کونسی ایم کو ایم میدان مارے گی۔

میں نے عید لاہور میں منائی، لاہور پاکستان کا سیاسی دارالحکومت تھا اور رہے گا۔ وہاں کے لوگ سیاسی طور پر ہمیشہ سے باخبر اور حساس رہے ہیں۔ ماضی میں تحریک پاکستان سے لیکر اب تک بہت سی تحریکوں نے لاہور سے ہی جنم لیا۔ وہاں کے ووٹر سب سے زیادہ متفکر ہیں کہ آخر اس غیر یقینی صورتحال میں ہوگا کیا۔
اگر ہم صورتحال کا جائزہ بالکل غیر جانبدار ہو کر کریں تو پنجاب کے ووٹر کا موڈ یکسر ان کے موڈ کے خلاف جاتا ہوا نظر آتا ہے جو اپنے آپ کو اس ملک کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں (جنھیں آج کل محکمہ زراعت کہا جا رہا ہے) انہیں عوامی موڈ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ عوام ہی تو قوم ہیں۔

آج کا ووٹر بہت سمجھدار ہے، آج کا ووٹر بہت آگاہ ہے، آج کے ووٹر کو اپنے مسائل پتہ ہیں، آج کے ووٹر کو اپنے مسائل کو اجاگر کرنے کا اس کو مختلف فورم پر اٹھاننے کا پتہ ہے، اسے پتہ ہے کہ سوشل میڈیا کیا ہے؟ اسے پتہ ہے کہ سوشل میڈیا کی طاقت کتنی ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟

ووٹر کو سمارٹ فون کا استعمال بھی آگیا ہے۔ اسے پتا چل گیا ہے کہ سمارٹ فون ہی اس کے مسئلوں کو سوشل میڈیا پر پھیلا دے گا اور وہی اس کے مسائل کو ارباب اختیار یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ تک پہنچا دیتا ہے۔
ووٹر نے سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کو ذریعہ بنا کر اپنے سرداروں کو چیلنج کیا ہے، سردار بھی لغاری اور مزاری اور بوسن سرداروں کو، کہ جن تک کبھی ایک غریب ہاری یا مزارع کی رسائی تک نہیں ہوا کرتی تھی۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ اب انہوں نے اپنے سرداروں کا صرف گریبان نہیں پکڑا پر اپنے سوالوں سے انھیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اور چھوڑیں بھی کیوں؟ کیوںکہ اگر وہ ان کو منتخب کرتے ہیں تو ان کا یہ حق ہے کہ وہ ان سے سوال کریں اور ان کی ناکامیوں پر ان سے جواب طلب کریں اور اگلی بار انہیں ووٹ نہ دیں۔

ملک کی ان ناگزیر قوتوں سے جن کو کبھی محکمہ زراعت کہا جاتا ہے اور کبھی خلائی مخلوق، سے دست بدستہ درخواست ہے کہ ووٹر کو کھل کر بلا رکاوٹ آزادی سے ووٹ ڈالنے دو۔ یہ ان پر چھوڑ دو کہ وہ آج یا کل اپنے لیڈروں سے پوچھیں کہ وہ کیوں نا کام ہوا۔ وہی نواز شریف سے پوچھ سکتے ہیں کہ اس نے ملک کے اداروں کو کیوں تباہ کیا اور اہم معاملات میں پارلیمان کو کیوں نظر انداز کیا، اگر ملک کی معاشی حالت بری ہے تو آپ کیوں عوام کو گمراہ کرتے رہے اور کرپشن کرتے رہے ۔ ووٹر نواز شریف کو یہ بھی بتا دے گا کہ ووٹ کی عزت کے لئے ووٹر کو عزت دینی ہوتی ہے۔ ووٹر عمران خان سے جواب طلب کر لے گا کہ اس نے دھرنے کس کے کہنے پر دیے اور ملک کو خطرات میں کیوں ڈالا، وہ خان سے پوچھ لیں گے کہ آپ نے اسمبلی کے اجلاس میں آنا گوارا نہ کیا پر آپ وہاں سے تنخواہ پوری وصول کرتے رہے۔ ووٹر نے پاکستان پیپلز پارٹی کو دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں کھل کر بتا دیا کہ آپ کی کارکردگی عوام کے لئے نہیں بلکہ اپنی ذات کے لئے تھی۔

تو بھائی لوگو، ووٹر کو آزادی سے ووٹ دینے دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).