بھیجا کہاں ؟


دماغ، مغز، بھیجہ ایک ہی عضو خاص کے مختلف نام ہیں۔ ماہرین طب اسے عضوِ رئیس بھی کہتے ہیں۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ جِدے گھر دانے اودھے کملے وی سیانے یعنی جس کے گھر دھن دولت اس کے بےوقوف بھی عقلمند۔ غریبوں کا تو کچھ بھی نہیں دل بھی رئیسوں کا، دماغ بھی رئیسوں کا ٹکٹ بھی رئیسوں کا، ووٹ بھی رئیسوں کا، الیکشن بھی رئیسوں کا۔ دماغ کو عضوِ رئیس قرار دینے والوں نے غریبوں کا استحقاق مجروح کیا ہے۔ جس خول میں یہ عضوِ رئیس پایا جاتا ہے عرفِ عام میں اسے کھوپڑی کہتے ہیں۔

کھوپڑی کو گھومتے کم لوگوں نے دیکھا ہوگا سُنا کئی بار ہے۔ کھوپڑی گھوم گئی تو یہ ہو جائے گا کھوپڑی گُھوم گئی تو وہ ہو جائے گا۔ ہوتا کچھ بھی نہیں کوئی آواز، کوئی گونج سُنائی نہیں دیتی۔ شبرات کے چھوٹے پٹاخے جتنی بھی نہیں۔ بچپن میں ہم ایک پودے سے چھوٹی سی بُوٹی اُتار کر اُسے درمیانی اُنگلی پر رکھ کر تھوک لگایا کرتے تھے اور وہ ”تڑک‘‘ کی آواز سے کُھل جاتی تھی، اب تو وہ تڑک بھی نہیں ہوتی۔ بس کچھ ادارے آج کل بُوٹی کو تھوک لگا رہے ہیں اور کچھ اُنگلی کو تُھوک لگائے بغیر فقط انگلی لگا رہے ہیں۔ جو گئے ہیں تُھوک انہوں نے بھی تھوک کے حساب سے لگایا تھا اور اتنا لگایا تھا کہ اب تُھوک لگانے والوں کے لئے کچھ نہیں بچا بلکہ صورتحال تھوکوں میں پکوڑے تلنے والی ہی ہے۔ پھر بھی اتنے دلیر ہیں کہ تھوک نگل بھی رہے ہیں، تھوک کر چاٹ بھی رہے ہیں اور تیوریاں چڑھا کر تُھو تُھو بھی کر رہے ہیں۔

اوہ ہم نے بھی کیا ‘‘تُھوتُھو وائرس” پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ دماغ پر زور دے کر واپس دماغ کا ہی سیاسی سٹی سکین کرتے ہیں۔

دماغ، مغز، بھیجا کچھ بھی کہ لیں نام میں کیا رکھا ہے۔ ویلیو تو اس بات کی ہے کہ سر میں اگر بھیجا ہے بھی، تو استعمال کتنا ہو رہا ہے۔ عضو خاص یا عضوِ رئیس کہیں عضو معطل تو نہیں۔ عضو معلق بھی کہا جا سکتا ہے اگر بقول انگریزی ڈرامہ نگار شیکسپیئر ‘‘ ٹُو بی آر ناٹ ٹُو بی ” والی کیفیت ہو۔ اہمیت دماغ کی نہیں دماغی کیفیت کی ہے۔ کسی بھی قسم کی دماغی خشکی یا دماغی فتور کے بعد دماغ ٹھکانے لگا ہے یا کسی‘‘مسیحا” کا انتظار ہے کہ آئے اور دماغ کی چُولیں ہلائے۔ معزز مغز پُر مغز ہے یا پھر کھوپڑی خالی ہے اور بھیجا کہیں اور بھیجا ہے۔ دماغ کی پھرکی گھوم جائے تو کسی کا سر کُھل جاتا ہے اور کسی کا دماغ ٹھکانے آجاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پہلی ہی چوٹ کارگر ہو اور بُھولی ہوئی داستاں فلمی سین کی طرح پھر یاد آجائے۔ بہر حال یہ کیا کم دردِ سر ہے کہ ایک عدد کھوپڑی ہے جس میں دماغ ہے، مغزہے، بھیجا ہے۔

مغز سے یاد آیا اپنے پُر مغز اور خوش خوراک کشمیری سابق ناہل وزیراعظم نواز شریف ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی تھے اسٹیج سیکرٹری نے انہیں بُلانے کے لئے‘‘ پُر مغز” شخصیت کہ کر مُخاطب کیا۔ موصوف کے اندر کے کشمیری کو اُبلتے ہریسے کی طرح اُبال آیا۔ فوراً گویا ہُوئے مغز، بھیجا کیا؟

اِس پر پیرا ٹروپر اینکرز اور تجزیہ نگاروں نے شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک کرنٹ افئیرز دیکھنے والوں کا بھیجا خالی کر دیا اور ایسے تاریخی حقائق سے پردہ اُٹھایا کہ اگلی کئی تاریخوں تک پردہ نشینوں کے لئے اپنی شناخت چُھپانا مشکل ہو گئی اوربار بار کی تکرار سے ناظرین کے کانوں کا پردہ پھٹنے کو تو تھا ہی، اکثر کا پردہ اتنا فاش ہوا کہ فاش ہوہو کر پھٹ ہی گیا۔

ایک دانشور قسم کے تجزیہ کار جن کے بھیجے میں پاکستان کی پولیٹیکل ”پُل ٹُو کِل” ہسٹری ٹھونس کر بھیجا گیا تھا۔ ہسٹیریائی انداز میں ہسٹری اُگلتے رہے کہ پاکستان میں ہر ‘‘پولی ٹیشن ” کا بھیجا کسی نے بھیجا۔ دوسرے صاحب جو‘‘ سیاہ ست” کی سیاہی سے کتابوں کی کتابیں سیاہ کر چُکے تھے۔ کندھے اُچکاتے ہوئے بولے۔ کُھل کر کیوں نہیں بولتے کہ ہر پولی ٹیشن کے ٹشن کے پیچھے ایک ہی ‘‘اٹین شین” بھیجا فیکٹری ہے جہاں مخصوص سوچ اور ہر سائز کے بھیجے مینوفیکچر ہوتے ہیں اور پھر جِسے بھیجنا مقصود ہواُس کا بھیجا باہر نکال کر ‘‘کولڈ اسٹوریج” میں رکھ دیا جاتا ہے اور ‘‘برانڈڈ” بھیجا اُس کی کھوپڑی میں فِٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہی نہیں یہ بھیجا فیکٹری اس نابغہ روزگار اور قیمتی ترین بھیجے کی

مقناطیسی لہریں، اٹریکشن سگنلز ہر دوسرے پولی ٹیشن کی کھوپڑی میں بھیج دیتی ہے۔ اُس کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے اور وہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے کا نعرہ مستانہ لگاتا آنکھیں، کان اور زبان بند کرنے کے بعد اپنا بھیجا مائنس 360 ڈگری پر فریز کرکے360کا یُو ٹرن لیتا ہواسابقہ بھیجوں پر لعنت بھیجتا ہے اور بھیجے ہوئے بھیجے کو سر میں ٹھونسنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگا دیتا ہے۔

نواز شریف کو سب سے پہلا بھیجا ان کے سیاسی جِد امجد مردِ مومن مردِ حق جناب ضیاءالحق نے بھیجا۔ جو انہوں نے درج شُدہ ہدایات کے عین مطابق نہایت احتیاط سے استعمال کیا۔ اس کے بعد جو بھیجا بھی انہیں بھیجا گیا خوش خوراک کشمیری ہونے کے باعث وہ بھیجا فرائی ہو جاتا۔ اور اتنا فرائی ہوتا کہ پانچوں گھی اور سر کڑاھی میں ہونے کے باوجود جاتی اُمراء کا کشمیری مُنڈا اُبلتی کڑاہی میں خود ہی ہاتھ پاؤں مارنے لگتا۔ نتیجہ بعد میں این آر او کا مرہم خاصی دیرجلے ہوئے زخموں پر لگانا پڑتا اور اچھی بھلی محنت بھی ضائع ہو جاتی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ میاں صاحب کہنے کو تو بھیجا ہوا بھیجا استعمال کرتے لیکن جب اپنا بھیجا استعمال کرنے کی کوشش کرتے تو گھر بھیج دیے جاتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر بھیجاعضوِ رئیس نہیں ہوتا، کچھ رئیس اپنا بھیجا استعمال کرنا بھی توہین سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی میاں صاحب کو بھبیجے کی بھجیا بنانے کا بہت شوق ہے۔ نیب کے اتنے چکر لگانے کے باوجود بھیجا ٹھکانے نہیں آیا۔ کس نے کہا تھا کہ میڈ ان راولپنڈی بھیجا فرائی کرو جب اپنا بھیجا بھی فریز ہو، فور سٹار کمپنی کا برانڈڈ بھیجا نکال باہر پھینکو گے تو پھر ‘‘ مجھے کیوں نکالا” کا شکوہ کیوں؟

چھوٹے میاں صاحب سے ہی کوئی سبق لیا ہوتا جن کا بھیجا دکھانے کا اورہے اور کھانے کا اور۔ ویسے بھی میاں صاحب آپ کو تو سعودیوں اور قطریوں کے بھیجے پسند ہیں۔ اربوں روپے ایون فیلڈ کے محلات میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے لگانے کے بعد بھی میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ ان کے علاوہ سب کے بھیجے کھسک گئے ہیں خاص طور پر ان اُمیدواروں کے جو کل تک ان کی گاڑی پر منوں پھول نچھاور کرتے تھے اور آج جیپ پر سوار انہیں کھری کھری سُنا رہے ہیں اور عوام کا تو بھیجا ہے ہی نہیں جو میاں دے نعرے وجن گئے سے کم پر بات ہی نہیں کرتے

جنابِ زرداری کا بھی ایک موقع پر ماتھا گھوم گیا تھا۔ بس ایک سیکنڈ میں اپنا بھیجا اپلائی کیا اور پھر بھیجے والوں نے ایسا دوبئی بھیجا کہ بعد میں اپنا بھیجا وہیں رکھ کر آنا پڑا اور اپنا انڈر ایج اپلائیڈ فار بھیجا رومن انگریزی میں اردو تقریریں رٹوا رٹوا کر ‘‘ کچی عُمر” میں ہی بلاول ہاؤس بھیجنا پڑا، جس کے بارے میں واقفانِ حال کہتے ہیں یہ وہ سکوٹر ہے جسے موڑو مشرق کو جاتا مغرب کو ہے۔

کم و بیش دو دھائیوں کی محنت کے بعد اب عمران خان نیازی کو اپلائیڈ فارمقناطیسی بھیجا بھیجا گیا ہے جس کے ساتھ ہر قسم کا بھیجا چمٹ رہا ہے۔ خطرہ یہی ہے کہ اور سب سے بڑا خطرہ ہے کہ اگر کپتان نے اپنا ‘‘ میانوالی والا” ضدی بھیجا استعمال کرنا شروع کر دیا تو ‘‘ فورسٹار مارکہ بھیجا” گُھوم جائے گا اور پھر وہی ہوگا جو میاں صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کپتان اور کھلاڑی میچ ہار کر ایک دوسرے سے پُوچھ رہے ہوں گے بھیجا کہاں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).