روحانی اور سیاسی بوسے


میڈیا میں چند دن قبل بوسوں کی گونج سنائی دیتی رہی ۔ اردو شاعری میں شعراء کرام نے محبوب کے لب و رخسار پر ہزار ہا غزلیں اور دیوان لکھ مارے ہیں۔ ساری ساری عمر محبوب کے لب و رخسار کی قصیدہ گوئی کرتے قبروں میں اتر گئے لیکن اکثریت نے قسمت ایسی پائی تھی کہ کبھی محبوب نے جناب شاعر کو گھاس تک نہ ڈالی۔ حضرت غالب تو یہ کہتے کہتے ہی چل بسے کہ:
غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں
بوسہ کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کہ یوں
ہمارے ہاں پیپلز پارٹی کے رہنما آج کل جیالوں کے بوسوں کی زد میں ہیں۔ بوسوں کی حالیہ بوچھاڑ جیالوں کی اپنے رہنمائوں سے بے لوث محبت کی عکاس ہے۔  پرانی بات نہیں، کبھی پیپلز پارٹی واقعی ملک کی مقبول ترین جماعت تھی۔ کچھ جیالوں کو بھٹو کی رہی سہی میراث سے اب بھی اگر محبت ہے تو یہ یقیناََ انہوں نے باپ دادا سے وراثت میں پائی ہوگی جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ایوبی آمریت کا جبر برداشت کیا یا پھر ضیاء کی ظلمت میں کوڑے کھائے اور بھٹو کی بیٹی کے دست وبازو بن کر تاریخ رقم کی ۔بھٹو اور بھٹو کی بیٹی سے جیالوں کی بے لوث محبت واقعی ہی ہماری سیاسی تاریخ میں ضرب المثل ہے۔ان پر عوام جانیں نچھاور کرتے تھے۔ کئی واقعات تاریخ بن چکے۔اب بھی کچھ لوگ ویسے ہی جیالا پن رکھتے ہیں۔
 30 جون کو بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی ؒ کے مزار سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ۔ ایک جیالے نے انہیں سندھی اجرک پہنائی، اجرک پہناتے ہی ناجانے جیالے کو کیا سوجھی کہ ایک دم اپنے لب بلاول کے گال پر چسپاں کردیے اور کیمروں کی چکاچوند میں لیا گیا یہ  بوسہ میڈیا کا سب سے ‘گرم مسئلہ’ بن گیااور اسے خوب مرچ مسالے لگا کر کئی بلیٹنز میں بیچا گیا۔ ایک جیالے کی کامیاب بوسہ پیمائی کے بعد باقی بے چارے دل ہی دل میں حسرت لیے شیفتہ کے اس شعر کا ورد کرتے رہ گئے ہوں گے:
 جس لب کے غیر بوسے لیں اس لب سے شیفتہؔ
کمبخت گالیاں بھی نہیں ہمارے واسطے
اس اچانک ‘بوسیائی حملے’ پر انگشت بدنداں بے نظیر کے نوجوان بیٹے اور پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کے امیدوار نے ایک لمحے کے لیے برا ضرور منایا لیکن پھر وہ مزید کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر جیالوں کو ہاتھ ہلانے لگے۔
بلاول کو اللہ نظر بد سے بچائے۔ وہ جوان، دلکش اور خوبرو ہیں لیکن کچھ کارکن بھی تو شوخی کی حد سے گزر جاتے ہیں ۔بلاول خوبرو ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ چوم چوم کر ہی بدنام کردو۔ اب وہ ہیلمٹ پہن کر تو جلسے میں جانے سے رہے۔ پھر اعتراض اٹھے گا کہ عوامی لیڈر بھٹو کے نواسے کو عوام سے دور کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔
چند ماہ پیشر خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں بھی ایسا ہی ایک حسین حادثہ ہوا تھا جب جلسے کے لیے بلاول سٹیج پر پہنچے تو ایک جیالے نے ہجوم کی آنکھ بچا کر ”مانتی جئی” اُن کا منہ چوم لیا اور بلاول بے چارے کے چہرے پر سرخی کی ایک لہر ڈور گئی اور ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکان خود بخود نمودار ہو گئی۔
بقول ظفر اقبال صاحب
بدن کا سارا لہو کھنچ کے آ گیا رُخ پر
وہ ایک بوسہ ہمیں دے کے سرخ رو ہے بہت
سندھ کے شہر روہڑی میں گزشتہ دنوں ایک جیالے نے حد ہی کردی، سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جلسے کے لئے پہنچے تو فرط جذبات کےبوجھ تلے دہرا ہو تا ایک جیالا ان کے پیچھے ہی پڑ گیااوربوسہ لینے کے لیے باقاعدہ اصرار شروع کردیا ۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے شعروں میں ایسے جذباتی جیالوں کی تصویر کشی گزشتہ صدی میں ہی کر دی تھی :
دھمکا کے بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کے
چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے
شاہ صاحب کو فرار کی جب کوئی صورت نہ نظر آئی اور بوسہ دیتے ہی بنی تو ایک بارتو  انہوں نے رخ تک باریابی بخش دی لیکن لیکن جیالا شائد شاہ جی کا کوئی پرانا عاشق تھا ، بس اردو شعراء کی طرح پیچھے ہی پڑ گیا ۔بقول آتش
بے گنتی بوسے لیں گے رخ دِل پسند کے
عاشق ترے پڑھے نہیں علم حساب کو
اصرار بڑھا تو شاہ جی نے مسکراتے ، شرماتے بمشکل گلوخلاصی کرائی اور عاشق جیالا دل ہی دل میں پکارتا رہ گیا:
آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر
ان بوسوں کا میڈیا میں کافی غلغلہ رہا۔ اخبارات میں تصویریں چھپیں اور چٹخارے دار عنوان لکھے گئے۔ سیاسی قیادت اورکارکنوں کی محبت بری چیز نہیں لیکن اس محبت کے اظہار کو لیڈر کے لیے باعث شرمندگی نہیں بنانا چاہیے۔ بہت سے مذہبی رہنمائوں سے بھی ان کے پیروکار بے حد محبت کرتے ہیں اور جہاں کہیں موقع ملتا ہے تو فرط محبت سے ان کے ہاتھوں پر بوسہ دینا نہیں بھولتے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے کارکنوں کو تو ان سے واقعی سچی محبت ہے۔
گزشتہ دنوں ایک اور سجدہ نما بوسے یا بوسہ نما سجدے کا میڈیا میں بڑا تذکرہ رہا ۔اخباروں میں تین تین کالمی خبریں با تصویر چھپیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی اہلیہ کی ہمراہی میں پاکپتن جا کر حضرت بابا فرید گنج شکر ؒ کے مزارکی چوکھٹ پر ”وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے” دو بار کیا ۔ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔تمام ٹی وی چینلز نےویڈیو چلائی اور عمران خان کے اس طریق ہائے عقیدت پر جو غل مچا، وہ تاریخ ہے۔ عمران خان نے البتہ اچھا کیا اگلے ہی دن ایک انٹرویو میں وضاحت کردی کہ سجدہ نہیں کیا بلکہ احترام اورعقیدت سے درگاہ کی دہلیز کو بوسہ دیاتھا۔ لیکن سوشل میڈیائی دانشوروں اور چینلز کے اجارہ داروں کو کون سمجھائے ۔فوراََ شرک کے فتوے لگنے شروع ہوگئے  وہ بھی جیّد علمائے کرام کی سند کے ساتھ۔ تاکہ فتوے صادر کرتے وقت کوئی ابہام نہ رہے۔وہ تو میڈیا کو مزید ‘ہاٹ ایشوز ‘ مل گئے اور توجہ منتقل ہو گئی۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).