اللہ کا واسطہ دینے والے سب ہاتھ بھکاری نہیں ہوتے


”اللہ کے واسطے میری بات سن لیں میں کوئی بھکاری نہیں میرے والد کو معذوری کے باعث ملازمت سے نکال دیا ہے ہمارے گھر میں فاقہ چل رہا ہے میری دو بڑی بہنیں ہیں اور ماں گھروں میں جاکر کام کرتی تھی، اب وہ بھی بیمار پڑ گئی۔ ہم تین دن سے بھوکے ہیں، مجھے کوئی کام دے دیں۔ اللہ آپ کا بھلا کرے“۔

بارہ سال کے کمزور بچے سے جب پوچھا کہ تم کیوں مانگتے ہو، اس پر بچے کی نگاہیں سوال کرتی نظر آئیں۔ وہ کچھ سوچنے کے بعد بولا، ماں نے کہا تھا بیٹا تمھیں کام اور بھیک مانگنے میں مشکل ہوگی، کیونکہ لوگ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ نہیں کرپاتے، ہر جگہ ایک جیسی بات ہوتی ہے۔ کوئی تمھارا اعتبار نہیں کرے گا۔ میں نے کسی کی امداد سے یہ پنسلیں خرید لیں تاکہ انہیں بیچ لوں، ماں بولی تھی اگر تم انہیں بھی ایمانداری سے بیچو گے، پھر بھی ہمارا خرچہ نہیں چلے گا۔ شاید تیری بات پر کوئی یقین کرلے اور تیری عمر پر ترس کھاکر کچھ دیدے۔ لیکن تیرے جتنے بھی الفاظ ہوں گے وہ لوگوں کے سنے ہوئے اور نئے نہیں ہوں گے۔ بیٹا تو انہیں صرف اسی صورت یقین دلا سکتا ہے جب اللہ کی ذات تیرا ہاتھ پکڑ لے۔

لڑکا بولا میں اللہ کی ذات کے بھروسے نکلا ہوں۔
جب میں نے اس سے کہا کہ بھیک مانگنے والے پیشہ ور گداگر بھی بالکل ایسی باتیں کرتے ہیں۔ پھر کوئی تمھاری بات کیوں سنے گا؟

اس پر بچے نے کوئی جواب تو نہیں دیا لیکن میری جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا اور قدرے نم آلود آنکھوں سے ٹکٹی باندھ لی۔
وہ قدرے جھجھکتے بولا، کیا آپ بھی سمجھتے ہیں میں غلط ہوں۔

مجھے اس معصوم کے استفسار نے سوچ میں ڈال دیا۔ میں نے فوری کہہ دیا نہیں ایسا نہیں مجھے بھروسہ ہے لیکن میں تھماری کتنی مدد کرسکتا ہوں، جس سے تم کچھ کرسکو۔ میں نے اسے پانچ سو کا نوٹ تھمایا اور آگے بڑھ گیا۔

بچے کے بارے میں میرا ذہن مسلسل سوچتا رہا، کیا یہ پروفیشنل تھا یا واقعی بدقسمتی کے شکار خاندان کا چشم وچراغ ہے۔ اور اس رقم سے وہ کیا کر پائے گا، گھر راشن لے جائے گا تو دوبارہ کل سڑک پر وہی سوال کرتا ہاتھ پھیلائے نظر آئے گا۔ اتنی رقم سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ ایسے پریشان حال گھرانوں کے لئے ریاست اگر کچھ نہیں کرپاتی تو سماج میں موجود کوئی فرد یا تنظیم کیا کرسکتی ہے۔ ہم فلاحی ریاست نہیں بن سکے لیکن کیا معاشرے میں اتنی بھی سکت باقی نہیں بچی کی وہ حادثات زمانہ سے دوچار لوگوں کاہاتھ تھام سکے۔ بھیک نما امداد مسئلے کا حل نہیں ہوسکتی۔

یہ بچہ جس کی عمر پڑھنے لکھنے کی ہے، حالات کی آندھی نے اس کی زندگی کا رُخ ہی بدل دیا اور وہ گھر سے اچانک سڑک پر آگیا، یہ دنیا بھی اس کے لیے نئی ہے یہاں وہ بہت جلد کسی غلط دھندے میں پڑ جائے گا کیونکہ اچھے کام کی طرف کوئی نہیں لے جاتا بُرائی بغیر مانگے ملتی ہے۔ یہ بچہ بھیک کے لئے ہاتھ نہیں پھیلا رہا وہ کسی حقیقی امداد کا متلاشی ہے اس کے خالی ہاتھ سب سے پہلے اعتماد اور اعتبار چاہتے ہیں، اس بھروسے کے طلب گار ہیں کہ تم درست ہو اور تھمارا ساتھ دیناچاہیے۔ اس بچے کو ہمدردی کی بھیک نہیں چاہیے، وہ معاشرے سے ایسے تعاون کا متقاضی ہے جس میں وہ اپنے خاندان کے لیے کچھ کرنے میں شرم محسوس نہ کرے۔

یہ کہانی نئی نہیں، یہ باتیں نئی نہیں۔ ہم ان سطور میں ایسے الفاظ کی بھرمار کردیتے ہیں جن کے نتیجے میں کبھی کبھی اتنی ہلچل مچ جاتی ہے کہ بڑے بڑے مخیر حضرات اور حکومتی شخصیات ہنگامی بنیادوں پر میدان میں اتر آتی ہیں۔ دادرسی کی ایسی داستانوں سے ماضی بھراپڑا ہے۔

سوال یہ ہے کہ روٹی کے چار حرفوں کی اس دوڑ میں اگر کوئی پیچھے رہ جائے یا وہ گر جائے اسے کو اُٹھانے اور دوبارہ اس میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش اور منظم نظام کی تشکیل کی جانب کوئی قدم کیوں نہیں رکھا جاتا۔ ہم ان خالی ہاتھوں پر کب تک سکے رکھتے رہیں گے۔ انہیں تھامنے کا جذبہ کب پیداہوگا۔ اللہ کا واسطہ دینے والے سب ہاتھ بھکاری نہیں ہوتے۔ ہمیں یقین کرلینا ہوگا۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar