ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟


ایک زمانہ تھا کہ تجاوز کا لفظ ہی معاشرے میں ایک برائی سمجھا جاتا تھا، اگر کسی کے گھر کی منڈیر یا چار دیواری نقشے کے مطابق نہ ہوتی تو اسے محلے میں ناپسندیدہ نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کھیلتے ہو ئے بچے بھی اپنی حدود کا خیال رکھتے تھے اور اب حال یہ آن پہنچا ہے کہ کسی کو اپنی حدود کا خیال ہی نہیں، ہر کو ئی شتربےمہار بنا پھرتا ہے۔ آ یئے اس بحران کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

یار لوگو ں نے قائد کی تقریر غائب کروائی تو کسی نے بانی پاکستان کے فرمودات کی ڈائری برآمد کر ڈالی، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر 11 اگست والی تقریر منشورسازی کے لئے کافی تھی تو پھر 25 فیصد آ بادی کے حصے کے حقوق کی ضمانت کیوں نہیں دی گئی اور آ ج یہ نوبت آگئی ہے کہ نقل مکانی کرکے جانے والے قائد سے سوال کررہے ہیں۔

چیف کورٹ سے آنے والا فیصلہ ہو یا گورنر جنرل کی کرسی پر ایک بیورو کر یٹ کا بیٹھ جانا، فیلڈ مارشل کی کابینہ ہو یا ایبڈو و پروڈا نامی قوانین کا نفاذ، ہر جگہ ایک ہی کہانی چل رہی ہے کہ اختیارات و فرائض سے تجاوز کی مثال قائم کرنے میں کوئی ہمارا ثانی نہیں۔

تاریخ کا ہر ورق شکوہ کناں ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آ ج بھی اونٹ کو ہنڈیا میں بٹھانا چاہتے ہیں۔ کہیں میڈیا کے کان مروڑے جارہے ہیں تو کہیں جمہور کو زباں بندی کا سامنا ہے۔ ماضی کے ہر گرے ہوئے کی مشکیں کسنے کے لئے کوئی نہ کوئی ساقی موجود ہے۔

آزادی کے ستر برس میں سے تقر یباً 32 بر س ایک سیاہ رات کا سامنا کرنے کے با وجود آ ج بھی وہ کالی گھٹا ہے کہ بڑھی چلی آتی ہے اور ظلم تو یہ ہے کہ اس کا نام لینا بھی کوئی گوارا نہیں کرتا۔

علاج کچھ اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں کے مصداق انتخابات کا مرحلہ آن پہنچا ہے مگر کیسے انتخابات، ہر امیدوار کو کسی نہ کسی تلوار کا سامنا ہے۔ کو ئی صیاد کی قید سے ما نوس ہے تو کسی کو درخت پر بیٹھے دو پرندے نظر آرہے ہیں اور مرے پہ سو درے کی مانند جیپ کا پراسرار انتخابی نشان تیزی سے چند مخصوص امیدواروں میں مقبول ہوتا جارہا ہے۔ چند جماعتیں پورے ملک میں ماحول گرما رہی ہیں اور چند کو تو امیدوار ہی پورے نہیں پڑ رہے۔ اساتذہ کرام تو کہتے تھے کہ
لڑائی وہ ہوتی ہے جب تلوار دونوں کے پاس ہو، ایک کے پاس تلوار نہ ہو تو مقابلہ نہیں بلکہ زیادتی ہوتی ہے۔

ایسی صورتحال میں عوام کا ہی فرض بنتا ہے کہ آگے بڑھ کر انتخابات کو ان کی اصل رو ح کے ساتھ منعقد کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انگریزوں نے تو کرامویل کے بیٹے کو بادشاہ تسلیم کر نے سے انکار کردیا تھا اور موروثیت کی بادشاہت کو واپس لے آئے تھے تو ہم تو ابھی جمہوریت کا سبق پڑھ ہی رہے ہیں، لہذا آزمائے ہوئے کو آزمانا اس بار جہالت نہیں بلکہ دانشمندانہ کہلائے گا۔ اس جدوجہد میں ہم اکیلے نہیں، اس بار انسانی حقوق کے مایہ ناز علمبردار بھی موجود ہیں اور اب تو آزادی اظہار رائے کے لئے سماجی رابطے کی سائٹس کا سا تھ بھی میسر ہے جبکہ فیض، جالب و فراز کا کلام تو ہمیشہ ہی نظریاتی لو گو ں کی دماغی غذا ثابت ہوا ہے۔
تجاوزات کا را ستہ ہمیشہ کے لئے روکنے کا یہ ایک آخری موقع ہے اور کمان ہمارے ہاتھ میں ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم جانا کہاں چاہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).