ڈوبتے لاہور نے سر کٹا انسان یاد دلا دیا


عراق کے سرحدی حاشیے سے بارہ کلومیٹر کی مسافت پر حدود شام میں فرانسیسی آفیسر لیفٹینینٹ کیبین کے پاس ایک مقامی بدّو بوکھلایا ہؤا آیا اور سرکٹا انسان سر کٹا انسان کی تکرار کرتا ہؤا چیخنے لگا۔ مذکورہ آفیسر اس کے بتائے ہوئے مقام تک پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ کھنڈرات کے ڈھیر پر ایک بے سر انسانی مجسمہ زمانہ قدیم کی عبرت ناکیوں کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ 1933 میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ پروفیسر آندرے پیرٹ کی سربراہی میں تشکیل دی گئی جماعت نے متذکرہ مجسمے کے قدموں کے عین نیچے کھدائی کا آغاز کیا۔ ابتدا میں تو حوصلہ شکن نتائج کا سامنا ہؤا لیکن کھوجنے کی کاوش تسلسل کے سلسلوں کو بُنتی، کھسکتی، سرکتی امتداد زمانہ کی مجتمع گرد کے غلافوں میں ملفوف تین ہزار سال قبل مسیح شاہ ماری کے بسائے شہر مری کے کھنڈرات کے سُراغ لگانے پہ جا سرخرو ہوئی۔ رازوں سے پردے ہٹاتے کھوجن ہار بتاتے ہیں کہ ریاست مری یا ماری دریائے فرات کے بالائی علاقوں کی زرخیزیوں کے مرتبات عالی کا اعلان کرتی ایک نخلستان نظر آتی تھی۔

جھگولے دریا کی روانیوں کا پتہ دیتا نہروں کا جال لہلہاتے کھیتوں کو سیراب کرتا توریوڑوں کو ہانکتے چرواہے سیٹیاں بجا بجا کے اپنی آسودہ حالیوں کا اظہار کرتے۔ بکری کی کھال سے بنی پوشاک پہننے والوں کی دیواروں پہ موجود کاشی کاریاں ان کی میدان فنون لطیفہ میں شہکاریوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جغرافیائی لحاظ سے تجارتی راہداری کا حامل یہ شہر تنگ مگر خوبصورت گلیوں کی وجہ سے حضرت ابراہیمؑ کے آبائی شہر اُر سے مشابہ تھا۔ماری کے آخری فرمانروا زمری لم کے محل کی عظمت رفتہ یاد دلاتی بوسیدہ دیواروں سے ملنے والی ہزاروں تختیوں پر حکومتی روزمرہ کی فعالیت، سفارتی مصروفیات اور اقتصادی تنظیم بارے بیش بہا خزانہ معلومات مرتسم تھا۔ اُر کے اوّلین بادشاہ مسینے پدا کا نام سنگ لاجورد کے آویزے پہ تحفہ دہندہ کے طور پہ درج تھا۔ پہلے تحریری آئین دہندہ بابل کے بادشاہ حمورابی کے ساتھ خط وکتابت کے نمونے بھی دریافت ہوئے۔  بارہ مہینوں پہ مشتمل شمسی کیلینڈر کے ذریعے شب و روز کے میقات ناپتے مارین باشندے ہیئر سٹائل اور لباس میں ہمعصروں میں منفرد گردانے جاتے تھے۔ ظروف سازی، کپڑوں کو رنگنا، دھاتوں کو پگھلانا، پہیوں کی ورکشاپ،کیک بنانے کے قالب اور لکڑی سے تیار کردہ کوئلہ کے نمونہ جات بھی ملے ہیں۔مرد و زن کو یکساں حقوق میسر تھے۔

کھدائی کا کام جاری تھا کہ ایک دن طوفانی بارش ہوئی جس سے کھودی جگہوں اور گڑھوں میں پانی بھر گیا نتیجتا کام کے تعطل کا اعلان کیا گیا۔ لیکن ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ پانی آنا فانا غائب ہو گیا۔ ہزاروں سال قبل تعمیر شدہ پلمبنگ کے نظام نے تمام کارکنان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ متعجب و متجسس ہنر مندوں کے کھوجنے پہ علم ہؤا کہ نکاسی آب و غلاظت بدری کا نظام کس قدر مستحکم تھا۔ بیت الخلاؤں کے فرش و دیواروں پہ تار کول کی تہہ جما دی جاتی تھی۔ پانی کے اخراج کے لئے چکنی مٹی سے تیار کردہ پائپ کی اندرونی سطح پہ بھی تار کول جمایا جاتا تھا۔ آندرے پیرٹ اپنے ہمراہیوں کے ہمراہ اس جامع نظام کو خراج تحسین پیش کر رہا تھا۔

تین جولائی کی سحر پُھوٹتے ہی سرمئی بادلوں نے قلب پاکستان کو گھیر لیا اور گرج گرج کر چمک چمک کر ایسے برسے کہ کہیں بلدیاتی اداروں کی قلعی کھول کے رکھ دی تو کہیں بجلی کے فیڈر بُجھ بُجھ کر شہر لاہور کو تاریکیوں میں دھکیلنے لگے۔ راستے مسدود کرتے برساتی دھارے جہاں شہریوں کو مشکلات سے دوچار کر رہے تھے وہاں نشیبی علاقے آبی روانیوں کے نیچے دبتے بے سروسامانیوں کی چیخوں میں واسا کے بلند بانگ دعووں کا پول کھول رہے تھے۔ تاریخی شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر آبی ذخائر منہ کھولے اس طرح دھاڑ رہے تھے کہ واسا کی مشینیں دُم دبائے بھاگ رہی تھیں۔ تل دھرنے کی جگہ نہ ملنے کی صورت میں نجی ٹی وی چینل کا رپورٹر تالاب کا منظر پیش کرتی سڑک پر واٹر پول رکھ کر رپورٹنگ کے فرائض انجام دیتا لاہور کو پیرس کے درجے پہ فائز کرنے والوں کی ملمع کاریوں کو اُدھیڑ رہا تھا۔ پانی میں کرنٹ متحرک ہونے کی وجہ سے ٹریفک پولیس کے دو اہلکار جان کی بازی ہارتے وطن عزیز میں انسانی جان کی قدر بتا رہے تھے۔

کہیں تنگدستی کی تنگ گھڑیوں میں سسک سسک کے جیتے مکین مکان کی چھت کے نیچے دب کر پر سکون ہو رہے تھے۔ صوبائی ایوان کے سامنے تاریخی شاہراہ پر پڑنے والا شگاف دیکھ کر آکاش پہ چھائے بادلوں کے قافلے بھی قہقہے لگا لگا کر پیرس کی منزل پہ فائز شہر کے ٹھٹھے اڑا رہے ہیں۔
راقم کی سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ یہ بارش در حقیقت آسمان کی اشک فشانی ہماری ایسی جمود پرستی پہ تھی جیسے جنگل کے معصوم چرندے اپنی طرف سے اطمینان لئے چراگاہوں میں پھرتے چرتے ہیں اور کوئی درندہ آ کے ان پہ جھپٹ کر جھنجھوڑ ڈالتا ہے۔ حالات و حقائق کی بے ادراکی اذہان و عقول سے بصیرت و دور اندیشی چھین لیتی ہے اسی طرح درندوں کے پنجوں سے بچ جانے والے جانور پھر سے ایسے سکون سے جینا شروع کر دیتے ہیں جیسے کُچھ ہؤا ہی نہیں۔ درندگی کا تواتر ان سے یہ سکون نہیں چھین سکتا۔

الیکشن سلیکشن کاغذات نامزدگی کی ریجیکشن کے شور سے بھرے نقار خانے میں پُر درد و پُر جوش نعروں کی صدا پہ لبیک کہتی قوم بڑے اطمینان سے شکارگاہوں میں شکار ہونے کے لئے تیار کھڑی ہے، جاگ پاکستان ووٹ پاکستان کی مہم کا جاگا شعور اپنے ضمیر کا ٹھپہ لگانے کے لئے اہل ضمیر کہاں سے لائے۔ ستر سالہ وطن عزیز میں کتنی حکومتوں نے زمام اقتدار سنبھالی لیکن شرح غربت کا اژدہا قابو میں آنے کی بجائے لحیم و شحیم ہوتا رہا۔

ہزاروں سال قبل کی تہذیب ماری آج بھی انداز تفاخرانہ سے افلاک ارتقا کو چھوتے دور حاضر کے حکمرانوں پہ ہنس رہی ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لئے اربوں روپے کے بجٹ، جدید انجینئرنگ اور وسائل بے پایاں کے باوجود مکان و مکین پانی پانی ہو رہے ہیں اور جن کے پانی پانی ہونے کا مقام تھا وہ ہٹ دھرمی و ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر سے ہمارے ووٹ کی طاقت سے طاقتور بن کر ایوانوں میں بیٹھنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ آئے روز کوئی درندہ ننھی کلی کو مسلنے کی درندگی کا مرتکب ہوتا ہے احتجاج ہوتے ہیں، برباد شدہ عزتوں کو میڈیا اچھالتا ہے، لیکن مجرم اور کیفر کردار میں نظام عدل کی غفلتیں حائل ہو جاتی ہیں، عبرت ناک سزا کی قانون سازی میں نمائندگان قوم نرم گوشے کے حامل ٹھہرتے ہیں لیکن ملکی خزانے سے تجوریاں بھرنا ہوں، سیر و سیاحت پر قوم کی دولت غارت کرنی ہو، محکوم کی زمین پر قبضہ جمانا ہو، انہیں رحم کا تصور تک نہیں آتا۔
اجداد کی قربانیوں سے حاصل کردہ قطعہ ارض کی حفاظت اللہ پاک فرمائے، قریب الواقع انتخابات میں ہمیں درد شناس امیدواروں کا انتخاب کرنے کی توفیق دے۔
جہاں ان گنت سوموٹو نوٹس دندنا رہے ہیں وہاں گر قاضی القضاۃ لاہور کے ترقیاتی کاموں میں ملوث بد عنوانیوں کا بھی ایک نوٹس لے لیں تو اور نہیں تو ان آٹھ گھرانوں کے پسماندگان کی شاید کچھ تشفی ہو پائے جو نہیں جانتے کہ کس جُرم میں باران رحمت میں اپنے اقربا کو حوالہ خاک کیا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).