خلائی مخلوق کا لیک شدہ سکرپٹ


ملک میں دو سیاسی جماعتیں باری باری اقتدار سنبھال رہی تھیں، ایک مسلم لیگ ن اور دوسری پیپلزپارٹی۔ یہ دونوں حصول اقتدار کیلئے خلائی مخلوق کی مدد کی طلب گار رہتیں ۔ کبھی ایک جماعت دوسری کیخلاف سازش کردیتی تو کبھی دوسری پہلی والی کیخلاف۔ اس طرح ان دونوں جماعتوں کو باری باری اقتدار تو ملتا رہتا مگر طاقت صرف خلائی مخلوق کے پاس ہی رہتی۔ خلائی مخلوق جب چاہتی حزب اختلاف کو ساتھ ملاکر سازش کرتی اور حکومت کو چلتا کرتی۔ اور جب اس سے بھی جی نہ بھرتا تو براہ راست اقتدار پر قابض ہوجاتی۔ یوں اہم معاملات جیساکہ خارجہ پالیسی وغیرہ ہر دور میں خلائی مخلوق ہی کی گرفت میں رہتے۔

ہوا کچھ یوں کہ یہ دوجماعتیں بالغ ہوگئیں، حکومت کے علاوہ اقتدار بھی مانگنے لگیں۔ یوں تیسری جماعت کی ضرورت محسوس کی گئی اور قسمت عمران خان پر مہربان ہوگئی۔ عمران خان نے برسوں سے محنت کی عوام کے دلوں میں اپنی جگی بھی بنالی۔ مگر اس سے خلائی مخلوق کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کیوں؟ کیونکہ ایک تو عمران خان فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت نہیں سکتا اور اگر الیکشن نہیں جیت سکتا تو خلائی مخلوق کو دو بالغ سیاسی جماعتوں کے ساتھ کام کرنا پڑتا جو کہ اقتدار میں بھی حصہ مانگتیں۔

اور اگر عمران خان کی جماعت برسر اقتدار آجاتی وہ بھی خلائی مخلوق کی مدد کے بغیر تو یہ بالغ سیاسی جماعتوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتے۔کیوں؟ کیونکہ ایک تو عمران خان کی کرپشن کیخلاف شواہد انتہائی کم ہوتے۔ ان کو بلیک میل کرنا مشکل ہوجاتا۔ یہ عوام کی بھرپور حمایت کیساتھ منتخب ہوتے اس میں کسی دھاندلی کا عنصر نہ ہوتا۔ انکی جماعت کے نشان پر منتخب ہوئے اکثر نمائندے پہلی دفعہ اقتدار میں آتے جو کہ ہوتے بھی پڑھے لکھے نوجوان۔ یہ لوگ مصلحتوں کا شکار ہوتے نہ ہی بلیک میلنگ کا اور جلد ہی وہ کام شروع کردیتے جو کہ انہیں کرنا چاہئے تھا۔ یعنی کہ قانون سازی۔ ایسا ہوتا تو خارجہ پالیسی، خزانہ، دہشتگردی وغیرہ وغیرہ پر خلائی مخلوق کی گرفت کم اور حکومت کی زیادہ ہوجاتی یوں ایک دن خلائی مخلوق کو نہ صرف ایک دن اپنے احتساب کا سامنا کرنا پڑتا بلکہ ایک سیاسی، جمہوری حکومت کے سامنے جھکنا بھی پڑتا، جیسا کہ بھارت یا ترکی وغیرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس صورتحال سے بچنے کیلئے اہم تھا کہ تحریک انصاف کو اقتدار میں تو لایا جائے مگر اپنی حمایت سے اور اپنے نمائندوں کے ذریعے۔ تاکہ مشکل وقت میں انہیں کنٹرول یا بلیک میل کیا جاسکے۔ لہذا پہلے پہل خلائی مخلوق نے اپنے چند نمائندوں کو اس جماعت میں بھیجا۔ جنہوں نے نہ صرف تحریک انصاف میں مزید فرشتوں کی جگہ بنائی بلکہ عمران خان کو بھی ایمپائر سے رجوع کرنے پر مجبور کردیا۔ یوں وہ تمام تر افراد جو کہ فرشتے تھے یا خلائی مخلوق سے ہمدردی رکھتے تھے مگر تھے مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی کا حصہ اب تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔

اب اگر تحریک انصاف الیکشن جیت جاتی ہے تو اس میں زیادہ تر حصہ کس کا ہوگا؟ خلائی مخلوق کا! اور اگر کل کو عمران خان کچھ انقلابی کرنا چاہیں گے بھی تو کر نہیں پائیں گے۔ کیوں کہ خود کو تنہا کھڑا پائیں گے جیسا نوازشریف خود کو دو مرتبہ پاچکے ہیں۔ لہذا حکومت اگر ایک نا بالغ سیاسی جماعت کو مل جاتی ہے تو اب وہ خلائی مخلوق کو قبول ہوگی کیوں کہ اقتدار وہیں ہوگا جہاں پہلے ہوا کرتا تھا۔

    مسئلہ مگر اپنی جگہ قائم تھا۔ عمران خان اب بھی الیکشن جیت نہیں سکتے تھے۔ کیونکہ دوبالغ ہوئی سیاسی جماعتیں۔ جو کہ ایک دوسرے سے رابطے میں تھیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی سازش چیدہ ہی کرتی ہیں اپنی جگہ قائم تھیں۔ لہذا ان میں پھوٹ پڑوانی ضروری تھی۔ انکو جدا جدا کرکے عوام کے سامنے ذلیل کرنا بھی اہم تھا ۔ اسکے لیے حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں خلائی مخلوق نے اپنے ایک انتہائی طاقتور وزیر کے ذریعے کراچی آپریشن کروایا ۔ جس کے تحت پیپلزپارٹی کیخلاف کارروائیاں کی گئیں۔ آصف زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، ایان علی وغیرہ کی کرپشن کے قصے عام ہوئے۔ بے چین ہوئے مفاحمت کے بادشاہ نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان دیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ ن کےقائد نوازشریف  نے ان سے دوری اختیار کرلی ۔ جس سے پیپلزپارٹی کو یہ پیغام ملا کہ مسلم لیگ ن نے انتقامی کارروائیاں کی ہیں، کوئی سازش ہوئی ہے۔ یوں دو بالغ سیاسی جماعتوں کے مابین دوریاں بڑھ گئیں۔ تقسیم کرکے راج کرنے والا فارمولہ کام آیا۔

 پیپلزپارٹی کی ٹھیک ٹھاک رسوائی کے بعد انتظام مسلم لیگ ن کا کیا گیا۔ خوش نصیبی سے پاناما اسکینڈل منظر عام پر آگیا اور یوں وہ تمام تر فائلیں جو خلائی مخلوق کے دفاتر میں پڑی سڑ رہی تھیں پھر سے کام آگئیں۔ رونق لگ گئی۔ تیسری مرتبہ کا منتخب وزیراعظم رسوا ہوکر گھر کو پہنچا۔ نہ صرف ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں کرپٹ ثابت ہوگئیں بلکہ عوام جمہوریت سے بھی بد دل ہوگئے اور ایک نابالغ جماعت جو مصیبت پیدا کرسکتی تھی اسے بھی اپنے سامنے جھکا لیا گیا۔

ایک چوک مگر ہوگئی۔ جس نوازشریف کو نااہل ہوکر چپ چاپ گھر چلے جانا تھا اور باقی زندگی کیسز بھگتنے یا پھر کوئی ڈیل کرکے ملک چھوڑ جانے میں گزار دینی تھی۔ اور ایسا کرنے پر اسکو اس خلائی مخلوق کے اس ہی وزیر نے راضی کرنا تھا جس نے کراچی آپریشن کروایا۔ وہ وزیر اپنا کام کرنے میں ناکام رہا۔ نوازشریف نے نا اہل ہونے کے بعد مجھے کیوں نکالا کا نعرہ بلند کردیا جسکی گونج میں اب مسلم لیگ ن انتخاب لڑنے جا رہی ہے اور تحریک انصاف کو بھرپور مقابلہ دیتی دکھائی دے رہی ہے۔

خلائی مخلوق کے اس طاقتور وزیر کا کیا ہوا؟ جو مسلم لیگ ن کا حصہ ہوتے ہوئے کسی  اور کی طرف سے کھیلتا رہا؟ اور اگر کامیاب ہوجاتا تو نوازشریف خاموشی سے ماضی کا قصہ ہوجاتے۔ اس وزیر کو تحریک انصاف میں جگہ مل پائی نہ ہی مسلم لیگ ن میں۔ نہ خدا ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے صنم۔ لہذا وزیر موصوف اب اس ہی خلائی مخلوق کی فراہم کردہ جیپ پر سوار ایک بچے کے مقابلے پر  انتخاب  لڑرہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ جیپ کہاں تک جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).