جب اللہ نہ کرے کہنا کارگر نہ ہو


کیا آپ نے کبھی سنا کہ امریکہ کا نائب صدر پینس کسی اور ملک کے آرمی چیف سے ملا ہو، نہیں نا مگر پاکستان میں انہوں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقات کی۔ چلیں مان لیا کہ افغانستان کے نزدیک دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں کے ضمن میں ایسی ملاقات ہو سکتی ہے لیکن کیوں؟ یہ معاملہ چونکہ سیاسی ہے تو اس سلسلے میں بات ملک کے سیاسی حکمرانوں سے کی جانی چاہیے۔ چلیں اس میں یہ بہانہ بنا لیتے ہیں چونکہ ان دنوں پاکستان میں منتخب سیاسی حکومت نہیں ہے اس لیے انہیں ان سے ملاقات کرنی پڑی۔ اس سیاسی مسئلے یعنی دہشت گردی کا تعلق جنگجوئی سے ہے مگر یہ دلیل بھی بہت بودی ہوگی اس لیے کہ اس امر سے نمٹنے کے جو عسکری پہلو ہیں اس ضمن میں بات چیت کرنے کی غرض سے دونوں ملکوں کے عسکری سربراہان کا ملنا مناسب ہوتا۔

آپ سمجھ رہے ہیں کہ مجھے اس ملاقات سے اختلاف ہے، ویسے تو آپ درست سمجھے پر مجھے اس ملاقات سے کسی اور طرح کی بو محسوس ہونے لگی ہے۔ جس کی بڑی وجہ ایک سیاسی پارٹی کے اکابرین کے ساتھ مسلسل امتیازی رویہ رکھا جانا اور دوسری پارٹی کے زعماء کو ہر طرح سے نیچا دکھایا جانا بلکہ نیب اور سپریم کورٹ میں مقدمات کے ذریعے دھول چٹوائے جانے کی بھونڈی سعی شامل ہے۔ پچھلے دنوں تو ایک فلمی نوعیت کا ڈائیلاگ بھی سننے کا موقع میسر آیا ہے کہ ” اگر سپریم کورٹ متنازعہ ہے تو یہاں آتے ہی کیوں ہو؟ “ ملک عزیز کے سیاستدانوں کے پاس اس کے علاوہ دو ہی چارہ کار ہیں یعنی فوج کا سربراہ یا امریکہ کا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مگر سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی ایسے سیاستدانوں کی اپنے طور پر خفیہ یا عیاں مخالفت یا مواقفت نہیں کرتا بلکہ پاکستان کے ”مین سٹیک ہولڈر“ سے مشورہ کرکے کرتا رہا ہے۔ چین ویسے تو پاکستان کی سیاست کے حوالے سے کسی شمار میں نہیں آتا رہا مگر سی پیک کے سبب اس کا رجحان بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

یہ بات بھی درست ہے کہ ہمارے ملک کے عوام کا ایک حصہ پاکستان کی فوج کو میراث و محافظ مانتا ہے جیسے امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اظالیہ اور چین کی افواج بکریاں چراتی ہوں مگر آپ ان ملکوں میں جا کر شہروں کے پڑھے لکھے لوگوں سے پوچھ لیں تو شاید ہی دس فیصد کو اپنے ملک کے فوج کے سربراہ کا نام معلوم ہو۔ ضرورت بھی نہیں ہوتی کیونکہ اس کا نام جاننے کی ضرورت یا فوجیوں کو ہوتی ہے یا ملک کی سیاسی اشرافیہ کو۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں الیکشن کمیشن کے سربراہ کو پوچھنا پڑ جاتا ہے کہ پوسٹر پر جنرل باجوہ اور میاں ثاقب نثار کی تصویریں کیوں ہیں، کیا یہ آپ کے رشتہ دار ہیں؟ مگر میڈیا کے عام ہو جانے اور بالخصوص سوشل میڈیا پر تاحال موجود آزادی اظہار کے سبب لوگ دو اداروں کے زعماء کے کردار سے نا آشنا نہیں رہے چنانچہ اگر 25 جولائی کو لوگوں نے ان کو منتخب کر لیا جن کو ”بڑوں ” کی حمایت حاصل نہیں تو کیا ہوگا؟ کیا انہیں پھر اقتدار میں آنے دیا جائے گا یا پھر کوئی ”چمتکار“ ہوگا۔ 27 جون کو امریکہ کے معروف و مستند روزنامہ ”دی وال سٹریٹ جرنل“ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ایک ” خاموش فوجی کو ” Silent Coup کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ایسے اخبارات میں ”محض تخیلات“ کو ہوا نہیں دی جاتی بلکہ ”ذرائع“ اور ” قرائن“ کو مدنظر رکھتے ہوئے بات کی جاتی ہے۔ امریکہ کے نائب صدر پینس کا پاکستان کی عسکری اشرافیہ سے ملنا بے معنی ہرگز نہیں ہے۔

ممکن ہے اس ملاقات میں امریکہ پاکستان اختلافات، دہشت گردی سے متعلق اعمال و افعال، ایف اے ٹی ایف کا حالیہ فیصلہ، موجودہ سیاسی حالات وغیرہ ہی زیر بحث آئے ہوں مگر مستقبل کی بات کیے بغیر ہرگز نہ رہا گیا ہوگا۔ ایک زمانے میں روس کے حکام پرویز مشرف کے جانے کے بعد عرصے تک تذبذب میں رہے تھے کہ دہشت گردی و منشیات کی سمگلنگ سے متعلق پاکستان میں کس سے بات کی جائے، آج ایک بار پھر روسی حکام پاکستان میں بات چیت کرنے سے متعلق متذبذب ہیں۔ بہت سے سیاسی اور تجارتی معاملات کو ” الیکشن کے بعد ” تک التوا میں رکھا گیا ہے۔ روس کا یہ رویہ بھی بے وجہ نہیں ہوگا۔

پی ٹی ایم کا بیانیہ، فاٹا کا الیکشن ملتوی کرنے کا مطالبہ جو رد کیا گیا، بلوچستان میں حالات کی بے یقینی، سندھ میں قوم پرست قوتوں کی حکمت عملی، سرائیکی بیلٹ میں جنوبی پنجاب صوبہ یا سرائیکی صوبہ کے علاوہ سرائکستان پر مباحث و کشیدہ اختلافات بہت کچھ کہنے کے لیے ہرگز ناکافی نہیں ہیں۔ مستزاد یہ خبریں کہ افغانستان میں امریکہ داعش کو منظم ہونے میں خفیہ طور پر مدد کر رہا ہے۔ اوپر سے پاکستتان میں مولانا احمد لدھیانوی کو فورتھ شیڈول سے نکال دینا اور کئی ایسی قوتوں کو جو سیاسی سے زیادہ مذہبی بلکہ مسلکی ہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دینا، یہ سب خوفزدہ کر رہے ہیں کہ کہیں 25 جولائی کے بعد ” ان چاہے نتائج“ آنے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حالات پاکستان میں مناقشے کو جنم نہ دے ڈالے جس سے پاکستان شام کے سے حالات سے دو چار ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).