سندھ میں سیاست کی بدلتی صورتحال اور سوشل میڈیا


گذشتہ کئی برسوں سے سندھ کی نوجوانوں میں سیاسی جماعتوں سے ناراضگی کا اظہار دیکھا گیا ہے۔ ایک سیاسی بیچینی اور مایوسی سی دیکھی گئی ہے۔ جس کی اہم وجھ سوشل سیکورٹی اور خراب معاشی صورتحال ہے سندھ کی پسماندہ علاقوں اور شہروں کی جانب اگر ایک نظر دیکھا جائے تو اس بات کا یقین ہوگا کہ گذشتہ کافی عرصے سے سندھ کی ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے پیروں وڈیروں اور جاگیرداروں نے سندھ اور سندھ کے لوگوں کی ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ بیرزگاری تعلیم۔ صحت۔ انفرا اسٹرکچر اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی سندھ کے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ جں کی وجھ سے لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ مگر ووٹ دینے کے باوجود لوگوں کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکے۔

ایک بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے دس سالوں میں بھی سندھ کے لوگوں کو صاف پانے نہیں دے سکے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت یہ ہے کہ لوگ اپنے بچے سرکاری اسکولوں کے بجائے پرائیویٹ اسکولوں میں بیجھتے ہیں۔ ایک طرف سوشل میڈیا کو طاقت کا سرچشما سمجھا جا رہا ہے تو دوسری طرف عوام اس بار ووٹ کا درست استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اب طاقت کا توازن دونو طرف سے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اب لوگ متبادل جماعت کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کون سی جماعت ہے جو ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ مگر اب تک سندھ کے لوگوں کو ایسی کوئی بھی متبادل سیاسی جماعت نظر نہیں آ رہی جو ان کے لئے مسیحا بنے۔

دوسری طرف نوجوانوں نے اس بار سیاست میں داخل ہونے کے لںے سوشل میڈیا کا میدان سجایا ہے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بدلتی ہوئی صورتحال میں نوجواں قیادت پرانے نظام کو بدلنے کے خاطر کتنی سنجیدہ ہے۔ سوشل میڈیا نے اس طبقے کو زبان دی ہے جو لوگ صدیوں سے خاموش تھے۔ جو لوگ وڈیروں اور جاگیرداروں کے سامنے بولنے سے ڈرتے تھے اب وہ لوگ قبیلے کے سرداروں سے سوال کرتے ہیں اور سمارٹ فون کے ذریعے ان کی کرتوتوں کی وڈیوز بناتے ہیں۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پے پیپلز پارٹی کے مخالف اتحاد گرینڈ ڈیموکریٹک الاںنس جی ڈی اے کے امیدواروں پر بھی سخت قسم کی تنقید کی جا رہی ہے۔ دیکھا جاہے تو جی ڈی اے میں بھی وہی پرانے چہرے سامنے آئے ہیں۔ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی ایک ہی گاڑی کے پیے ہیں دوسری جانب قوم پرست جماعتوں کا بھی یہی حال ہی جو عوامی حمایت کے بغیر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

قوم پرستوں کی جانب دیکھا جایے تو وہ ہمیشہ عوامی مسائل سے دور باگنے کی سیاست کرتے رہیں ہیں۔ انہوں نے کبھی سماجی خدمت اور عوامی انداز سے سیاست نھیں کی۔ تیس سالوں سے زائد عرصے میں انہوں نے صرف لوگوں کو انقلابی نعروں اور آزادی کے خواب دکھائے ہیں۔ اب سوال یے پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے جماعت ہے جو سندھ کے لوگوں کے بنیادی حقوق انسانی وسائل کی جانب راغب ہو؟

سوشل میڈیا پے متحرک نوجوانون کو ایک ایسا الاںنس بنانا چاہںے جو جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی سے بہتر ہو مگر اس وقت تک جاری جنگ میں مختلف حلقون سے کافی نوجوان الگ الگ طور پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ سندھ کے نوجوان اس بار الیکشن میں حصہ لیں رہی ہیں مگر ان کے پاس اتنے وساہل نہیں ہیں کہ وہ وڈیروں جاگیرداروں سرمایہ کاروں سے مقابلہ کر سکے اگر سندھ کے لوگ نوجوان قیادت کو آگے لانا چاہتے ہیں تو اس کے نہ صرف حمایت کرنے ہوگی مگر ان کو الیکشن میں جیتنے کے لئےسیاسی اور مالی مدد کرنے ہوگی۔

الیکشن کا موسم اور سوشل میڈیا پے لوگوں کے مزیدار تبصرے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لوگ اب عوامی عدالت سوشل میڈیا کو سمجھتے ہیں۔ اب لوگ سیاستدانوں سے پوچتے ہیں کہ کیا پارٹی مینفیسٹیو میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عوام کو پانچ سال کے بعد اپنا چہرا دکھانے جانا ہے۔ مگر دوسرا پہلو یہ بھی ہی کہ ہم فیس بک کی دنیا میں بیٹہ کر الیکشن کا نتیجھ نہیں دے سکتے۔ لوگ اکثر جذبات سے چیزوں کو دیکہتے ہیں مگر سیاسی حقیقتیں کچھ الگ ہوتی ہیں۔

دوسری اہم بات جو لوگ سوشل میڈیا کو اپنی طاقت سمجھتے ہیں ان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ طاقت کا صحیح استعمال کیسے ممکن ہے اور کسی کی مخالفت میں سیاسی زبان کا استعمال کیسے کیا جائے۔ اکثر لوگ ٹولوں کی صورت میں کسی کی مخالفت میں انتہاپسندی اور دھمکیوں تک نکل جاتے ہیں۔ ہر کسی کو اظہار رائے کا حق برابر کا ہے۔ پارٹی بدلنا ہر کسی کا جمہوری حق ہے۔ لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جمہوریت کا اصل مقصد فرد کی رائے کا احترام کرنا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرے گے تو ایک جمہوری اور صحتمند سماج کی تکمیل ناممکن ہے۔

دوسری طرف نوجوانوں کو الیکشن میں کھڑے ہونے کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کے ذرائع پیدا کرنا لازمی جز ہے۔ ہم صرف سوشل میڈیا سے یے جنگ نہیں جیت سکتے۔ اس وقت سندھ کی صحافت کو وڈیروں جاگیرداروں کی اوطاقوں اور بنگلوں سے نکل کر نوجوان قیادت کا ساتھ دینا چاہیے۔ سندھ کے دانشوروں اور قلم کاروں کو اب پیپلز پارٹی کی جانب راغب ہونے سے پہلے یہ سوچنا ہوگا کہ اب سندھ کی قسمت نوجوان ہی بدل سکتے ہیں۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ سیاست کے طاقتور گھوڑے کی لگام یعنی ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ہوگا کیونکہ دانشور ہمیشہ پیپلز پارٹی کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کبھی بھی نوجوان قیادت کو آگے لانے کی کوشش نہیں کی۔

دانشور بھی ہمیشہ پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں جو بات اب سندھ کا نوجوان سمجھ چکا ہے۔ سندھ کی ثقافت کو بھی سندھ کے دانشواروں نے نہیں بخشا ثقافت کے نام پر حالت اتنی تشویشناک ہے کہ اب دانشور سندھ کے مسائل پر لکھنے کہ بجائے حکمرانوں کی قصیدہ گوئی میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا کا انقلاب برپا ہونے کہ بعد اب اب قلمکاروں کے آدرش نظریاتی انقلابی سیاست کا ڈراما اب سندھ کے نوجوانوں کی سمجھ میں آچکا ہے۔ نوجوانوں کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ اب دانشور اور قلمکار کی اصلی جگہ کتابیں اور لائبریری نہیں پر کرپٹ سیاستدانوں کے ڈرائنگ روم ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).