مڈل کلاسیوں کے المیے


وہ محاورہ سنا ہوگا آپ نے ”تین میں نا تیرہ میں“ یہ ہم مڈل کلاسیوں کے لئے بنا تھا۔ یعنی ایک قسم امیروں کی ہوتی ہے اور ایک غریبوں کی اور ان کے بیچ کی ایک ٹائپ ہوتی ہے عجیبوں کی۔ بلکہ آپ عجوبے بھی کہہ لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ہم مائنڈ نہیں کریں گے۔ ہم تو کچھ برا مناتے ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ شاید ہمیں اس کا حق ہی حاصل نہیں؟ یا شاید مائنڈ کرنا ہمیں مہنگا پڑ جاتا ہے اس لئے بھی ہم فکر نا فاقہ کی عملی تفسیر بنے اٹکن بٹکن کھیلتے رہتے ہیں۔ اس کلاس کی تعریف کے لئے سب سے آسان طریقہ استعمال کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر مڈل کلاس کوئی لڑکی ہوتی تو اس کا نام شکل چڑیلوں سی، مزاج پریوں کے ہوتا۔

اپنے بچپن میں ہم دادی سے ایک مثال سنتے تھے کہ افیم کھائے امیر یا کھائے فقیر۔ مطلب تو بڑے ہونے کے بعد سمجھ میں آیا کہ زمانے بھر کے غیر اہم لوگ ہم متوسط الحال ہی ٹھہرے ہیں کہ جن کو افیم تک میسر نہیں ہو سکتی۔ متوسط طبقے کا مقام وہی ہے جو سیاہ اور سفید کے درمیان میں سرمئی کا ہے۔ اور جو زمین اور آسمان کے بیچ میں خلاء کا ہے۔ اور جو پہلی نازوں پلی اور آخری لاڈلی اولاد کے بیچ میں پیدا ہونے والی اضافی اولاد کا ہے۔

ہماری زندگی کے المیوں کی فہرست دیوار چین جتنی طویل ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر ہمارے اپنے کنفیوزڈ دماغوں کی کاری گری ہے جس کی وجہ سے ہمیں کسی کروٹ آرام نہیں آتا۔ ہم لوگوں میں کبھی امیر ہونے کی خواہش مادھوری کی طرح بلکہ بے طرح انگڑائیاں لیتی ہے تو کبھی لوئر کلاس والوں سے ہمدردی سر پر سوار رہتی ہے۔ ہم لوگ بلی کی میاؤں سے بھی ڈرتے ہیں اور معصوم کی آہوں سے بھی۔

ہم ایک ہزار کا نوٹ پورا ہفتہ لئے لئے پھرتے ہیں کہ ذرا سی چیزوں کے لئے اتنا بڑا نوٹ کون تڑوائے کسی طرح کھینچ تان کر گزارہ کرتے ابھی سکون کا سانس لیا ہی ہوتا ہے کہ پھپھو کے بچے یا اس کے بھی بچے کا عقیقہ/ روزہ کشائی/ سالگرہ وغیرہ جیسی افتاد ایک فضول دعوت کی شکل میں وارد ہو جاتی ہے۔ اور وہ ہزار کا نوٹ جو کسی خوابوں میں رہنے والی دوشیزہ کی ڈائری میں رکھا ہوا خشک گلاب کے پھول کی طرح سنبھالا جارہا تھا ایک کاغذی پھول کی طرح اڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

متوسط طبقے کی عورتیں مارننگ شوز دیکھ کر اس میں رکھے ہوئے صوفہ سیٹ کے لئے روپیہ روپیہ بچاتی ہیں۔ اسی بچت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سبزی لیتے وقت ایک کلو بھنڈی کے لئے اتنی بحث کرتی ہیں جتنی عدالت میں وکیل جرح کرتے ہیں اور بالاخر جب وہ صوفہ خون پسینے کی کمائی کے عوض ان کے قبر کے رقبے سے کچھ بڑے ڈرائنگ روم میں کسی طرح ٹھونس ٹھنسا کر سیٹ کر دیا جاتا ہے تو جناب اس کے بعد ان نئے صوفوں کو لٹھے کے کفن والی چادروں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور جیسے مردے کا چہرہ کچھ دیر کے لئے دکھایا جاتا ہے، اسی طرح ان صوفوں کی رونمائی بھی محض سال میں دو تین بار خاص موقعوں پر اور خاص الخاص مہمانوں کی آمد پر ہوتی ہے۔ اور سونے پہ سہاگہ ان مہمانوں کو کمرے میں گزرنے کے لئے سیلف ڈیفینس سے کام لینا پڑتا ہے ایک ٹانگ قدرے اٹھا کر اور دوسری ٹانگ سے اس احتیاط سے قدم بڑھانا پڑتا ہے کہ کہیں سینٹر ٹیبل کا کونا گٹھنے میں نہ گھس جائے۔

ہم خواتین کا ایک اور المیہ ٹھنڈے شاپنگ مالز میں اپنی جوتیاں گھسنا اور مہنگے برانڈز کو دیکھ کر اس کی ریپلیکا گرمی سے تپتے جمعہ بازار میں تلاش کرنا ہے۔ اور اس پر بھی جب اسٹال والے سے سولہ سو کا جوڑا پندرہ سو کا دینے پر اصرار کرتی پائی جاتی ہیں تو وہ جل بھن کر کہتا ہے ”ہاں بڑے مال میں جا کر تو چپ چاپ خرید لیتی ہیں، وہاں کم نہیں کرواتیں دام“ اور پھر 15 منٹ کے مکالمے کے بعد ”نہ تیری نہ میری“ والی عظیم درمیانی راہ کا انتخاب کرتے ہوئے فاتح عالم کے سے انداز میں گھر کی راہ لیتی ہیں۔

مڈل کلاس کا اس سے بھی بڑا المیہ اردو اور انگلش میڈیم کی الگ الگ کشتیوں میں بیک وقت سوار ہونا اور اس کے بعد نوکری کے ساحل کو تلاش کرتے کرتے اگر سفارش کا چپو نہ ملے تو ڈوب جانا ہے۔ ارے نوکری سے یاد آیا کہ کراچی کے مڈل کلاسیوں کی حالت زار تو اس سے بھی بڑے بڑے مخمصوں کا شکار ہے مگر قارئین! دراصل اب موقع کی نزاکت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے یہیں اختتام دینا ہوگا کیونکہ رات کے کھانے کا وقت ہوگیا ہے اور ہم مڈل کلاسیوں میں ابھی ”کھانا خود گرم کرو“ والی عورتوں کی نام نہاد برابری والی وباء نہیں پھیلی ہے تو بقول شاعر
“وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن،
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھورنا اچھا“
کے مصداق ہم بھی اس محرومیوں کی دکان کا شٹر آج یہاں ہی گرا دیتے ہیں۔

کہنے کو ابھی بہت کچھ ہے مگر آج کے لئے اتنا ہی! بشرط وفا زندگی اور بشرط منظوری ایڈیٹر، اگلی تحریر میں خاص طور پر کراچی کے مڈل کلاسیوں پر ٹارچ سے روشنی ڈالی جائے گی۔ اللہ ہمارے ہر کلاس سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں پر رحم فرمائے۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).