مجھے میرا حق دیا جائے


میں ایک پاکستانی ہوں۔ بالکل ایک عام پاکستانی۔ نہ تو میرے پاس کوئی اختیار ہے نہ اقتدار نہ کوئی حکومت نہ کوئی طاقت۔ اگر ہے تو صرف ایک دل جو اپنے وطن کے لئے دھڑکتا ہے۔ اگر ہے تو ایک ذہن جو اپنے ملک کے مسائل کو دیکھتا ہے، سوچتا ہے، پریشان ہوتا ہے اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر کوئی اختیار اور اقتدار نہ ہونے کے باعث کہ جس کی مدد سے میں اپنے ملک کے مسائل حل کرسکوں میں تھک جاتا ہوں اور اب مجھے صرف ایک ہی راستہ نظر آتا ہے کہ آواز بلند کروں اپنے حصے کا پانی اپنی چونچ میں بھر کر اس آگ کو بجھانے کی کوشش کروں جو میرے وطن اور میرے وطن کے ہر شہری  کو جلا رہی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ میری طاقت صرف میری آواز ہے جو بلند کر رہا ہوں اس ناانصافی اور ظلم کے خلاف جو برسوں مجھ سے روا رکھا گیا۔
کبھی مجھے روٹی، کپڑا مکان کے نام پر بے وقوف بنایا گیا، کبھی مجھے الگ صوبہ، الگ شناخت اور کوٹہ سسٹم کے نام پر گمراہ کیا گیا۔ کشکول توڑنے کے دعویداروں نے میرے ملک کے ہر بچے کو لاکھوں کا مقروض بنا دیا۔ اتنی بے دردی سے تو کوئی گدھ بھی مردار کو نہیں نوچتا جس بے دردی اور سفاکی سے یہ لوگ میرے وطن کی دولت نوچ کے باہر لے گئے اور وہاں اپنے بچوں کے لئے عالیشان محلات اور جائدادیں بنا ڈالیں۔ میں اور میرے بچے آج بھی وہیں ہیں جہاں پہلے تھے مگر عوامی نمائندہ ہونے کے دعویداروں کو میں نے پیدل سے لینڈ کروزر پر سوار ہوتے دیکھا۔ میرے نام پر مجھ سے ووٹ لے کر میرے ہی کاندھوں پر سوار ہو کر یہ لوگ جب پارلیمان میں پہنچ گئے تو ان کے بڑے بڑے قافلوں کے بلا تعطل سفر کے لئے سڑک پر میرا ہی راستہ روکا گیا تو یقین جانئے دل خون کے آنسو رودیا۔
ہر قدم پر میرا نام لینے والے، مجھے اصل قوت اور طاقت قرار دینے والے، میرے ووٹ کی عزت کے نام نہاد رکھوالے میری اپنی عزت نہ بچا سکے، مجھے صاف پانی تک نہ دے سکے، میں آج بھی بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اپنے بچوں کو مار کر خود کشی کررہا ہوں۔ میں آج بھی کئی کئی گھنٹے لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنے کے باوجود بھاری بھاری بل ادا کررہا ہوں۔ میں اور میرے بچے آج بھی غیر محفوظ ہیں۔ میں آج بھی اپنی بجیوں کی زندگی اور عزت کے لئے خوف زدہ ہوں۔ میری فلاح و بہبود کے منصوبوں کے نام پر صاحبان اقتدار اپنی فلاح و بہبود میں مصروف رہے اور میرا بچہ بچہ مقروض ہوتا چلا گیا۔ غرض میرا نام لے کر میرے ہی جوتے سے میرے سر پر وہ ضربیں لگائی گئی ہیں کہ سر سے پا تک لہو لہو ہے وجود میرا۔
اب ایک اور انتخاب سر پر ہے۔ ایک بار پھر میرا امتحان ہے کہ میں نے اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے پارلیمان میں بھیجنا ہے تاکہ وہ میرے مسائل کو حل کرسکیں۔ قانون سازی کرسکیں۔ میرے اور میرے وطن کے لئے بہتر پالیسیاں بنا سکیں۔ ایک بار پھر یہ پل صراط میں نے طے کرنی ہے کیونکہ اس میں مجھے یہ طے کرنا ہے کہ ایک بار پھر میں ان کے جھوٹے وعدوں کا اعتبار کرکے انہیں منتخب کرلوں یا بالکل انہیں مسترد کرلوں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس سارے انتخابی عمل کے ذمہ دار ترین ادارہ کی جانب سے مجھے یہ حق نہیں دیا گیا کہ بیلٹ پیپر پر ایک مسترد کا خانہ بھی رکھا جاتا تاکہ میں انہیں مسترد کرنا چاہوں تو کرسکوں۔
مجھے صرف انتخاب کرنے کا حق ہے مسترد کرنے کا حق میں نہیں رکھتا۔ مجھے صرف وہی حق دیا گیا ہے جو ایک دکاندار اکثر اپنے گاہکوں کو دیتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس نہیں ہوتا صرف تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یعنی میرے پاس بھی ایک گاہک کی طرح دو ہی قسم کے اختیارات ہیں یا تو میں ایک کو مسترد کرکے دوسرے کو منتخب کروں یا پھر انتخابات والے دن گھر سے ہی نہ نکلوں۔ اس دوسری صورت میں بھی میرا حق رائے دہی اپنے حق میں استعمال کرلیا جاتا ہے۔
جہاں مجھے صرف انتخاب کا حق دیا جاتا ہے وہیں مجھے مسترد کرنے کا بھی حق دیا جانا چاہئیے۔ میرے منتخب کردہ نمائندوں کو میں پانچ سال بعد بھی صرف اس لئے یاد آتا ہوں کہ انہیں مجھ سے ووٹ درکار ہوتا ہے اگر یہ دورانیہ تا حیات ہوتا یہ میری شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ ہوتے۔ میری صرف ایک گزارش ہے کہ اگر مجھے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق دیا گیا ہے تو انہیں مسترد کرنے کا حق بھی مجھے دیا جائے۔ منتخب ہو کر پارلیمان میں پہنچنے کے بعد اگر ایک سال کے اندر ارکان پارلیمان ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے کہ جن کے حل کے لئے انہیں منتخب کیا گیا تھا تو مجھے یہ حق دیا جائے کہ میں مذید پانچ سال ان مسائل میں مبتلا رہنے کے بجائے ان ارکان کو مسترد کرنے کا حق محفوظ رکھوں۔ مجھے میرا حق دیا جائے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).