پرائیویٹ کمپنیاں یا بیگار کیمپ


علامہ اقبال نے ہماری قوم کے آجر کو خوب پہچانا تھا۔ اسی لیے کہا تھا ”ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات“۔ پاکستان بننے کے بعد عرصہ تک جو یہ ظلم ملازمین پر ہوتا تھا اس کی شدت تعلیم یافتہ طبقے کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ظلم زیادہ تر دیہات تک محدود تھا۔ جوں جوں زمانہ ترقی کرتا گیا ساتھ ساتھ یہ ظلم بھی ترقی کرتا گیا اور مختلف شکلوں میں ملازمین پر نازل ہوتا گیا۔ اب اس چکی میں ان پڑھ اور تعلیم یافتہ طبقہ دونوں ہی پس رہے ہیں۔ پہلے پہل انجینئر اور دوسرا تعلیم یافتہ طبقہ اس لیے پرائیویٹ ملازمت کرتا تھا کہ اس میں تنخواہ گورنمنٹ ملازمت سے زیادہ ملتی تھی اس کے علاوہ بونس اور دوسرے مالی فوائد بھی ملتے تھے جو کہ سرکاری ملازمت میں نہ تھے مگر اب حالت یہ ہو گئی ہے کہ نجی اداروں میں ملازمین کے لیے حالات بہت ہی برے ہو گئے ہیں۔

چند سال پہلے کی بات ہے مجھے ایک اچھے بڑے ادارے کا سروس انجینئز ملا جو الیکٹرانکس میں گریجویٹ تھا۔ اس کا ادارہ بڑے اداروں کو لیبارٹری مشینری سپلائی کرتا تھا اور ساتھ ہی آفٹرسیل سروس مہیا کرتا تھا۔ اس کام کے لیے اس نے بہت سے انجینئز بھی ملازم رکھے تھے۔ میں جس فیکٹری میں ملازمت کرتا تھا وہ وہاں سروس دینے آیا تھا۔ اس کا ٹوٹا جوتا دیکھ کر ازراہ مذاق میرے ایک ساتھی نے کہا اتنے بڑے ادارے کے انجینئر ہو پیسے بچا کر قبر میں لے جانے ہیں جوتا ہی خرید لو۔ یہ سن کر وہ دکھ سے بولا کہ میں گھر کی دال روٹی چلاؤں یا جوتا لوں۔ مجھے تین ماہ سے تنخواہ ہی نہیں ملی اس سے پہلے بھی کئی کئی ماہ تنخواہ روک لیتے ہیں پھر تھوڑے پیسے دے دیتے ہیں تا کہ مرے بھی نہ زندہ بھی رہے اور کام بھی کرتا رہے۔ ان دنوں ہماری فیکٹری کے حالات اتنے برے نہ ہوئے تھے اس لیے ہم سب لوگوں کو اس کی بات بہت عجیب لگی۔

جب میرا بچّہ تعلیم سے فارغ ہوا تو جلد ہی اسے ایک اچھی کمپنی میں ملازمت مل گئی۔ ان کے ادارے میں بھی یہی حال ہوا کہ ملازمین کی تنخواہیں روک لیتے تھے اور کبھی کبھار تھوڑے پیسے دے دیتے تھے۔ آخر تنگ آ کر میرے بچّے نے ملازمت چھوڑ دی اور دوسری جگہ نوکری کرنے لگا۔ اس کے پرانے ساتھیوں نے کچھ عرصہ ملازمت کے بعد اپنے مالک پر مقدمہ کر دیا کہ یہ ہمیں ہماری تنخواہیں ادا کرے اس مقصد کے لیے میرے بچّے کو بھی آمادہ کر لیا کہ وہ بھی مقدمے میں ساتھی بن جائے۔ ان کے سابقہ مینیجر نے بھی اپنا ایک الگ ادارہ بنا کر کام شروع کر دیا۔ اور ان لوگوں کو وہاں ملازمت کی پیشکش کر دی اور وعدہ کیا کہ مقدمے کی تاریخ پر ان کو عدالت میں پیشی کی اجازت ہو گی۔ اب سب ملازمین ایک بیگار کیمپ سے نکل کر دوسرے میں آ گئے۔

میرا بچّہ بھی اپنی ملازمت چھوڑ کر ان کے ساتھ مل گیا۔ مقدمہ ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ اور سب لوگ اپنے سابقہ مینیجر اور موجودہ مالک کے ادارے میں کام کرتے رہے۔ لیکن یہاں بھی حالات مختلف نہ تھے یہ بھی وقت پر پوری تنخواہ نہ دیتا تھا۔ اب سب کو معلوم ہوا کہ جتنے پیسے سابقہ مالک سے حاصل کرنے کے لیے وہ جنگ کر رہے تھے اس سے کہیں زیادہ پیسہ وہ موجودہ مالک کے نیچے دبا چکے ہیں۔ ایک مالک پر پہلے مقدمہ کر کے بھگت رہے تھے اور تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی تھیں اس لیے نیا مقدمہ بھگتنے کی ہمت نہ تھی۔ ہماری عدالتیں بھی طاقتور کا ساتھ دیتی ہیں اور کمزور کا مقدمہ تو بس چلتا ہی رہتا ہے۔

یہ ایک دو واقعات نہیں ہیں۔ یہ تو کم وبیش اب ہر پرائیویٹ ادارے میں ہو رہا ہے۔ ہمارے اتنے بڑے بڑے نشریاتی ادارے بھی اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا نہیں کرتے۔ دوسروں کے عیب بڑے زور شور سے عوام کے سامنے لانے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اپنے گریبان میں منہ نہیں ڈالتے کتنے لوگوں کا خون ماہانہ کی بنیاد پر چوس رہے ہیں۔ چھوٹے اداروں کی تو بندہ بات ہی کیا کرے۔ یہاں تو چھوٹے بڑے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ نہ انہیں کسی پر رحم آتا ہے نہ ہی اللہ کا کوئی خوف ہے کہ اسے بھی منہ دکھانا ہے۔

ملازمت پیشہ آدمی کا تو چولہا ہی اس کی تنخواہ سے جلتا ہے۔ جب اسے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی تو وہ مجبوراً گھر کا مال واسباب پیچنے پر آ جاتا ہے۔ اس کو مقدمے بازی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا اگر آٹھ دس سال بعد غلطی سے اس کے حق میں فیصلہ آ بھی جائے تو روپے کی قدر میں کمی کے باعث اس رقم کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ گئی ہوتی۔ وہ اس رقم کو حاصل کرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ رقم مقدمے بازی میں گنوا چکا ہوتا ہے۔ اس تمام عرصہ میں جو ذہنی عذاب برداشت کرتا ہے وہ الگ۔

پہلے مجھے لیبر لاء کے بارے میں علم نہ تھا میں اور لوگوں کی طرح اس کا تمغہ بھی بھٹّو صاحب کے سینے پر سجاتا تھا۔ اب پتہ چلا کہ لیبر پالیسی ایوب خان کے دور میں آئی تمام لیبر قوانین 1967۔ 1968 میں بنے اور ان پر عمل بھی شروع ہو گیا۔ ان دنوں اداروں کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وقت پر تنخواہ کی ادائیگی ہو۔ مگر ہمیں جمہوری اداروں کی طرف سے سب سے بڑا تحفہ یہ ملا کہ تمام نجی فیکٹریاں اور ادارے سیاستدانوں کے قبضے میں آ گئے اور وہ مادر پدر آزاد ہو گئے۔ پہلے پاکستان کے پہلے بائیس امیر خاندان صنعتکاروں کے تھے۔ پہلے کوئی حکمران یا وزیر پاکستان کے امیر خاندانوں کی لسٹ میں نہ تھا۔ اب اس لسٹ میں صرف سیاستدان ہی ہیں۔

ان دنوں ہمارے چیف جسٹس صاحب نے تنخواہوں کی ادائیگی کے سلسلے میں کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ مگر وہ بھی صرف میڈیا ملازمین کے لیے۔ میری اپنی حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں سے التجا ہے کہ اس سنگین مسئلے پر توجہ دیں۔ جیسے بل کی لیٹ ادائیگی پر جرمانہ ہوتا ہے اسی طرح تنخواہ کی دیر سے ادائیگی پر بھی جرمانہ ہو اور جتنا زیادہ لیٹ ہو اتنا ہی جرمانہ بڑھتا جائے۔ جو آجر وقت پر اپنے ملازمین کو تنخواہ ادا نہ کرے اسے سزا دی جائے۔ ایسے مقدمات کا فیصلہ بھی ایک ہفتہ سے کم مدت میں سنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).