5 جولائی 1977ء سے 25 جولائی 2018ء تک


41  برس پہلے ضیا الحق نام کے جس شخص نے ملک میں اصلاح احوال کا بیڑا اٹھایا تھا اور ایک منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کر کے آئین کو کاغذ کا بیکار ٹکڑا قرار دیا تھا، آج بھی اس کا بھوت جمہوریت، آزادی رائے اور بنیادی حقوق کے لئے خطرہ بنا ہؤا ہے۔ البتہ اس وقت اس مزاج کی زد پر وہی لوگ ہیں جنہیں ضیا الحق اپنی سرپرستی میں اقتدار تک لایا اور حکمرانی کے اسباق یاد کرواتا رہا تاکہ وہ عوامی امنگوں کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کو پیچھے دھکیل کر اقتدار اور حکمرانی پر قابض رہیں۔ ضیا الحق اپنے تمام تر مکروہ ہتھکنڈوں اور ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھانے کے باوجود نہ پیپلز پارٹی کو ختم کرسکا اور نہ ہی عوام کی اس خواہش کو تبدیل کرسکا کہ وہ اپنے آبا و اجداد کی قربانیوں سے بنائے ہوئے اس ملک میں خود اپنے نمائندوں کے ذریعے فیصلوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔

جمہوری راستہ روکنے کے لئے ضیا الحق کے پروردہ نواز شریف ہی اب جمہوریت کے علمبردار بن کر سامنے آئے ہیں اور یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ’عوام کے ووٹ کو عزت دی جائے۔ ان کی رائے کا احترام کیا جائے اور ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ ہی فیصلے کرنے کی مجاز ہے۔ یہ اختیار منتخب پارلیمنٹ سے اداروں کو منتقل نہ کیا جائے خواہ وہ ادارہ عسکری قوت کا حامل ہو یا آئین کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر اس کی حفاظت کے نام پر عوامی حکمرانی کے راستے کی رکاوٹ بن رہا ہو‘۔ ضیا کی روح نواز شریف کے کردار کی اس تبدیلی پر شرمندہ ہو یا نہ ہو لیکن اس فوجی آمر نے جمہوریت اور عوامی بہبود کے خلاف جو مزاج ملک میں تیار کیا ہے، وہ اب بھی ان اصولوں کو مسترد کرکے سازش، طاقت اور خود ساختہ نظریات کی بنیاد پر ملک کو ان کے اصل مالکوں کے حوالے کرنے سے انکار کرتا ہے۔

سولہویں صدی سے شروع ہونے والا نوآبادیاتی نظام کئی صدیوں کی جدوجہد کے نتیجے میں بمشکل گزشتہ صدی کے دوران اپنے انجام کو پہنچا۔ تاہم اس طویل نو آبادیاتی دور نے دنیا کے مختلف ملکوں اور خطوں کی سیاست، مزاج، عوامی اختیار اور ترقی پر مہلک اثرات مرتب کئے۔ اس کے علاوہ نوآبادیاتی قوتوں نے براہ راست حکمرانی کو ترک کرنے کے باوجود سابقہ نوآبادیوں کی معیشت اور سماجی رویّوں کو کنٹرول کے ذریعے ان علاقوں میں آباد لوگوں کو حقیقی معنوں میں آزاد ہونے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا موقع فراہم کرنے سے محروم کیا۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے اور ماہرین اور سیاسی مبصر اسے پوسٹ کالونیل ازم کا نام دے کر ان مسائل کو سمجھنے اور ان کی صراحت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے سماج اور معیشت کے علاوہ سیاسی رویّوں پر بھی اس جبر و استبداد کے نشانات تلاش کئے جا سکتے ہیں۔

ضیا الحق جیسے فوجی آمروں کو بھی اس مزاج سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کی حد تک اگر 5 جولائی 1977 کو رونما ہونے والے سانحہ اور پاکستان کی سیاست اور سماجی رویّوں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ان اثرات ہی طرح مہلک اور المناک ہے جو سابقہ نوآبادتی قوتوں کی ’محتاجی‘ کی صورت میں متعدد ترقی پذیر ممالک کو درپیش ہیں۔ یہ ممالک آزاد ہونے کے باوجود مکمل طور سے خود مختار نہیں ہوسکے۔ نوآبادیاں قائم کرنے والے ممالک نے اپنے پیچھے نوکر شاہی اور سیاسی حکمرانی کرنے والوں کی ایسی نسل چھوڑی ہے جس نے اب تک نہ عوام کو فیصلے کا مجاز سمجھا اور نہ کبھی سابقہ حکمرانوں کی تابعداری سے روگردانی کی۔

اس وقت پوسٹ کالونیل ازم کے اثرات پر بحث مطلوب نہیں ہے لیکن یہ غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کی سیاست اور طرز حکمرانی اب بھی اس روایت کے شکنجہ میں ہے جسے ضیا الحق نے پروان چڑھایا اور سینچا تھا۔ اسی لئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ 25 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات پر دراصل ضیا الحق کے بھوت کا سایہ ہے۔ جمہوریت کے نعروں، آئین کی بالادستی، عدلیہ کی خود مختاری اور سیاست سے فوج کی لاتعلقی کے اعلانات کے باوجود سارے کام اسی طرح انجام پا رہے ہیں جن کی بنیاد ضیا الحق نے رکھی تھی۔ ہم جمہوریت کا نعرہ لگانے اور اس کا ڈھونگ کرنے کے باوجود اب تک جمہوری رویہ اور مزاج پروان چڑھانے اور عوام کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ اس معاملہ کو سیاسی نعرہ کی حیثیت ضرور حاصل ہو گئی ہے لیکن اس سے زیادہ نہ تو کوئی سیاست دان اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی عوامی حکمرانی کے سوال پر سب ’جمہوریت پسند‘ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔

آج اگر ضیا الحق کا بھوت نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا راستہ کاٹ رہا ہے تو بے شک اس پر تالیاں بجائی جا سکتی ہیں کہ یہ راہ تراشنے میں نواز شریف نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ لیکن تالیاں بجانے والے اگر اس بات سے بےخبر ہیں کہ کل یہ تالیاں ان کی حالت پر بھی بجائی جائیں گی تو یہ واقعی تشویش اور پریشانی کی بات ہے۔ ضیا الحق نے ملک میں متوازن سوچ کی بجائے انتہا پسندی اور جمہوریت کی بجائے آمرانہ مزاج کو فروغ دیا۔ آج اس کا کڑوا پھل سب چکھ رہے ہیں اور اہل پاکستان اس کی قیمت اپنے خون اور عالمی سطح پر بدنامی کی صورت میں ادا بھی کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے ادارے خواہ وہ سیاست کی انجینئرنگ کرنے والے عسکری ادارے اور ایجنسیاں ہوں یا عدالتی نظام ہو، عقل کے ناخن لینے اور تبدیل ہوتے ہوئے ماحول اور حالات میں پرانی حرکتوں سے باز رہنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ انہیں آج بھی یہی لگتا ہے کہ جس طرح ضیا الحق یا اس کا جانشین پرویز مشرف معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس بار بھی اسی طرح ’قومی مفاد‘ کی حفاظت کی جا سکے گی۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali