عمران خان کے گلگت بلتستان میں اثرات


بدل گیا سارا پاکستان ایک ہم ہیں کہ بدلے تو ایسے کہ بدل کے بھی بدل نہ سکے۔ نواز لیگ نے پورا کا پورا پاکستان بدل ڈالا۔ لاہور میں میاں شہباز کی ”بدلیاں“ ہمیں ”ہضم“ نہیں ہورہی ہیں۔ حالیہ بارشوں نے بتادیا کہ بدلتا ہوا پاکستان یہی لاہور سے نمایاں ہوچکا ہے۔ ”میں نہ مانوں“ والی تکرار میرے جیسے انسان کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے ماننا ہوگا کہ لاہور بدلا ہے۔ پاکستان بھی بدلا ہے لیکن اگر کسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے تو وہ میری ذات ہے۔ میں کیوں نہ تسلیم کروں کہ لاہور کی تبدیلی پورے پاکستان کی تبدیلی ہے۔ لاہور جو پیرس کی شکل اختیار کرچکا تھا اُس کو بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ نواز لیگ نے پورے پاکستان کی ملمع کاری کی ہے یا نہیں لیکن ایک بات ضرور جانتا ہوں کہ اُن کی پوری ہمدردی، ملمع کاری اور ترقیاتی منصوبہ بندی لاہور کے لئے ضرور تھی۔

اُدھر سندھ میں بہت بڑی تبدیلی نظر آئی۔ پیپلز پارٹی کی حکمرانی اور حقِ اقتدار پوری طرح جوان ہے۔ بلاول بھٹو کی سیاست میں شراکت داری بھرپور تبدیلی کی ایک نمایاں مثال تھی۔ لیکن سڑکوں، تعلیمی اداروں، شہری و انتظامی معاملات میں ہمیشہ کی طرح سیاہی پھیرتی ہوئی نظر آئی۔ غریب کی جھونپڑیاں اب بھی چراغ کی محتاج ہیں۔ اُن جھونپڑیوں کے باسی دو وقت کی روٹی حاصل کرپاتے ہیں یا نہیں یہ تو تبدیلی کے دعویدار افراد ہی جانیں لیکن یہ ضرور معلوم ہے کہ وہ باسی آج بھی اپنے دو وقت کی روٹی کے حصول کے لئے تبدیلی کے دعویداروں کو پھر سے ووٹ دینے کے لئے مجبور ضرور ہیں۔

پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو نوجوان قیادت ہیں اور ملکی تقدیر بدلنے کے لئے نوجوان قیادت کی اَشد ضرورت ہے۔ اب یہ خوش فہمی ہے، اُمید ہے یا حقیقت یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن ایک پیشنگوئی ضرور سُن لیجیے کہ وقت اور حالات ضرور بدلیں گے اگر کچھ نہیں بدلے گا تو وہ صرف اور صرف حکمرانوں کی نیت، اُن کا طرزِ حکمرانی، چال چلن اور ایک بار پھر سے عوام کو آسرا پہ رکھنے کی روش نہیں بدلے گی۔ پیپلز پارٹی اس سے قبل تین مرتبہ اقتدار میں رہ چکی ہے۔ بطور جماعت اس کی آزمائش ہوچکی ہے لیکن بطور سربراہ بلاول بھٹو کا یہ پہلا امتحان ہے۔

میرے جیسے انسان اس طرح کے معاملات کو قبل از وقت نتائج سے تولنے کے عادی نہیں لیکن میں زیادہ پُراُمید بھی نہیں اور زیادہ نِراش بھی نہیں۔ جس طرح انصاف والے عمران خان کو ایک مرتبہ حقِ حکمرانی کا مستحق سمجھتے ہیں اس طرح جیالے بھی فریادی ہیں کہ بلاول کو بھی موقع ملنا چاہیے۔ میں نے دونوں کو موقع دے دیا۔ آپ بھی دیں۔ (سب سے گزارش ہے ) آخر میری بھی ایک ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری سیاست دانوں کو ووٹ دینا اور اُن کو موقع فراہم کرناہے۔ بھلے میری زندگی بدلے یا نہ بدلے۔ میں نے اپنے حکمرانوں کو ضرور بدلنا ہے۔

اب آئیں عمران خان کی طرف۔ موصوف اس وقت پاکستانی سیاست کی اوجِ ثریا کو چُھو رہے ہیں۔ میڈیا میں عمران خان کو سیاست کا بزرگ ترین کھلاڑی اور سوشل میڈیا میں پاکستان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ انصافیوں کو زعم ہے اور خیال بھی کہ اگلی باری عمران خان کی یے۔ یہ نعرہ جیالوں کو تو بالکل بھی ہضم نہیں ہوگا کیونکہ اُن کے ہاں تو یہ نعرہ گذشتہ کئی سالوں سے زرداری صاحب کے حق میں لگایا جارہا ہے کہ ”اِک زرداری سب پہ بھاری“ اس باہمی چپقلش میں کس کی باری آتی ہے وہ ”ملنگی بابا“ جانیں۔ تبدیلی کا نعرہ عمران خان نے متعارف کرایا۔ ممکن ہے کہ خیبر پختونخواہ میں کسی حد تک تبدیلی آئی بھی ہو۔ جیسا کہ میٹرک کے امتحانات میں 52 ہزار پشاوریوں نے پاس نہ ہوکر اور فیل کا تمغہ سجاکر بتلا دیا کہ ہم تبدیل کے اولین نشان زدہ ہیں۔

عمران خان کی تبدیلی کے اثرات گلگت بلتستان میں پُرزور طریقے سے مشاہدہ کیے گئے۔ لوگوں کا دیوانہ وار تحریکِ انصاف کی طرف متوجہ ہونا اور دھڑلے سے شامل ہونا اس بات کا غماز ہے کہ وہ تبدیلی کو قریب سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ واقعی میں یہ تبدیلی کے اثرات ہیں یا موسم ہی ”بدلاٶ“ کا آیا ہے۔ بہرحال سب کے لئے نیک خواہشات، نیک تمنائیں اور خود کے لئے بھی ایک موہوم سی اُمید کہ کیا پتہ واقعی میں کوئی تبدیلی آجائے۔ لہٰذا گلگت بلتستان کے عوام کو باشعور ہونا ہوگا، اور جاگنا ہوگا کہ ہمیں اپنے خطے اور وطن کے لئے تبدیل ہونا چاہیے نہ کہ ہر کسی کے لئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).