الیکٹ ایبل اور پیسے کے بغیر نہیں جیت سکتے: عمران خان


”آپ الیکشن جیتنے کے لئے لڑتے ہیں۔ آپ اچھا بچہ بننے کے لئے الیکشن نہیں لڑتے۔ میں جیتنا چاہتا ہوں۔ میں الیکشن پاکستان میں لڑ رہا ہوں، یورپ میں نہیں“۔
انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر نواز شریف کی تعریف۔
”میں ہمیشہ ہی سے الیکٹ ایبل کا متلاشی تھا، لیکن اس سے پہلے وہ ہمارے ساتھ شامل ہونے سے انکاری تھے“
”فوج نے بھٹو کی حکومت میں مداخلت نہیں کی، کیونکہ وہ ایک طاقتور وزیراعظم تھا۔“
عمران خان پرامید ہیں کہ وہ سادہ اکثریت سے وفاقی حکومت بنا لیں گے لیکن اتحاد کے لئے تیار بھی ہیں۔


”آپ الیکشن جیتنے کے لئے لڑتے ہیں۔ آپ اچھا بچہ بننے کے لئے الیکشن نہیں لڑتے۔ میں جیتنا چاہتا ہوں۔ میں الیکشن پاکستان میں لڑ رہا ہوں، یورپ میں نہیں“۔ عمران خان نے روزنامہ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔ انہوں نے الیکشن مہم کے لئے افرادی قوت اور مال دولت کی اہمیت پر باتیں کیں۔

”سنہ 1997 کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر ہم ایسے لوگوں کو پارٹی میں نہیں لیں گے جو الیکشن جیتنے کا فن جانتے ہوں تو ہم کامیاب نہیں ہوں گے“۔

”یہ یورپ نہیں ہے جہاں آپ نے صرف لوگوں کو یہ بتانا ہوتے ہیں کہ آپ کن عزائم کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور وہ جا کر آپ کو ووٹ دے دیں گے۔ پاکستان میں آپ کو پیسہ چاہیے اور ہزاروں تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ جو لوگوں کو الیکشن کے دن باہر لا سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس ایسے ورکر نہیں ہیں تو آپ الیکشن نہیں لڑ سکتے“۔

پارٹی کے مخلص کارکنوں کے مقابلے میں سیاسی لوٹوں کو ٹکٹ دینے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”یہاں کی سیاسی اشرافیہ اتنی زیادہ نہیں بدلتی ہے۔ آپ چند نئے ایکٹرز کو تو متعارف کرا سکتے ہیں مگر آپ سیاسی اشرافیہ کو یکسر تبدیل نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ میں مہاتیر محمد کی مثال دیتا ہوں جنہوں نے اسی پرانی سیاسی اشرافیہ کو ایک صاف ستھری لیڈر شپ دے کر ملائشیا کو بدل ڈالا“۔

انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہوں نے اپنے نظریات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیا ہے۔ ”سمجھوتہ یہ ہوتا اگر میں حکومت میں آنے کے بعد اپنے مقاصد سے ہٹ جاتا اور اگر میں ایک صاف شفاف حکومت نہ چلاتا“۔

انہوں نے کہا کہ نئے چہروں کو تحریک انصاف کی پالیسیوں اور نظم و ضبط پر چلنا ہو گا ورنہ وہ ان کو باہر نکال پھینکیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ”نیا پاکستان“ کا نعرہ صرف ”نئی تحریک انصاف“ بنانے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے بتایا کہ ان کی حکمت عملی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ ”ہر طرف یہ لطیفہ پھیلا ہوا ہے کہ میں نے اب الیکٹ ایبل اکٹھے کر لئے ہیں۔ میں ہمیشہ ہی سے الیکٹ ایبل کا متلاشی تھا، لیکن اس سے پہلے وہ ہمارے ساتھ شامل ہونے سے انکاری تھے“۔

”ایم پی ایز اور ایم این ایز کو بھول جائیں، ماضی میں تو ہم نے دوسرے شہروں کی یونین کونسلوں کے الیکٹ ایبلز کو بھی اپنے ساتھ شامل ہونے کا کہا ہے۔ یہ 2011 کی لاہور میں مینار پاکستان کی ریلی تھی جس کے بعد لوگوں نے اپنا ذہن تبدیل کیا اور ہم میں شامل ہونے لگے“۔

انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری پر نواز شریف کی تعریف

عمران خان بہت کم معاملات میں نواز شریف کی تعریف کرتے ہیں۔ لیکن جب انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی بات ہو تو وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ نواز شریف نے اپنی بھرپور کوشش کی۔

”نواز شریف نے اپنی بھرپور کوشش کی (کہ انڈیا سے تعلقات بہتر ہو جائیں)۔ میں ان کو اس بات کا کریڈٹ دیتے ہوں۔ نواز شریف نے ہر ممکن کوشش کی، اپنے گھر بلا کر ذاتی تعلقات کی بھی۔ ان کے راستے کی کوئی رکاوٹ نہیں بنا۔ لیکن میری رائے میں نریندر مودی کی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ان کا ایک نہایت جارحانہ پاکستان مخالف انداز ہے کیونکہ مودی یہ چاہتا ہے کہ وہ کشمیر میں جو بربریت کر رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھر دے۔ اس رویے کے ہوتے ہوئے آپ کیا کر سکتے ہیں؟ “

سول ملٹری تعلقات

اس سوال پر کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ سول ملٹری تعلقات کے نازک معاملے کو کس طرح حل کریں گے، عمران خان نے کہا کہ اچھی حکومت ان کی قوت ہو گی۔

”جب آپ کے پاس ایک ایسی جمہوری حکومت ہو جو کارکردگی دکھائے تو یہ اس کی قوت ہوتی ہے۔ پاکستانی سیاست میں فوجی اثر اس وجہ سے رہا ہے کہ ہماری سیاسی حکومتیں بدترین تھیں۔ میں اس کی وکالت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں لیکن جب کوئی خلا پیدا ہو تو کسی چیز نے تو اسے پر کرنا ہوتا ہے“۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”چور اور کرپٹ حکومتوں کو دیکھ کر عوام کشادہ بانہوں سے فوج کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ جب 1999 میں مشرف نے مارشل لا لگایا تو عوام نواز شریف کے سیاسی گڑھ لاہور میں جشن منا رہے تھے کیونکہ حکومت ناکام ہو چکی تھی۔

انہوں نے یاد دلایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے مضبوط ترین وزیراعظم تھے اور ان ملکی معاملات پر مکمل کنٹرول تھا۔

”فوج نے بھٹو کی حکومت میں مداخلت نہیں کی“

”وہ (بھٹو) پاکستان کا طاقتور ترین وزیراعظم تھا۔ اس نے بہت سے فوجی افسران کو برطرف کیا۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ بالاتر نہیں تھا۔ جب لوگ فوجی مداخلت کی بات کرتے ہیں تو ان کو یہ علم ہونا چاہیے کہ فوج نے بھٹو کی حکومت میں مداخلت نہیں کی، کیونکہ وہ ایک طاقتور وزیراعظم تھا۔ “

جب ان سے خارجہ پالیسی میں فوج کی مداخلت کے بارے میں پوچھا گیا تو عمران خان نے کہا ”جب سیکیورٹی سچوایشن ہو تو فوج مداخلت کرے گی۔ اگر آپ افغانستان میں امریکی پالیسی دیکھیں تو بہت سی امریکی افغان پالیسی پر پینٹاگون کا اثر نظر آتا ہے۔ حتی کہ جب براک اوبامہ افغانستان میں جنگ جاری نہیں رکھنا چاہتا تھا تو اس کو رکھنی پڑی کیونکہ اسے پینٹاگون نے قائل کر لیا تھا“۔

مخلوط حکومت بنانے کا امکان

اگرچہ وہ پرامید ہیں کہ وہ سادہ اکثریت سے وفاقی حکومت بنا لیں گے، لیکن جب ان سے متبادل پلان کے بارے میں پوچھا گیا تو عمران خان نے کہا ”مخلوط حکومت کا دار و مدار متعلقہ اتحادی پر ہے۔ اگر ہمارا اتحادی ہمیں اپنے منشور پر عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے تو پھر یہ ٹھیک ہے“۔

انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو خیبر پختونخوا میں سابقہ اتحادی قومی وطن پارٹی کے ساتھ مشکلات کا سامنا رہا تھا اور ایسے ممبران کو باہر نکال پھینکنا پڑا تھا جو اینٹی کرپشن کوڈ کی مزاحمت کر رہے تھے۔ ”اگر ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ کرپٹ ہو تو اس کے ساتھ اتحاد بنانا مشکل ہو گا“۔

دہشت گردی کا خاتمہ

اگرچہ اس موقف پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن عمران خان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات پر جمے ہوئے ہیں۔

”ایک دوہری پالیسی ہو گی، پہلی مذاکرات کی اور دوسری فوجی ایکشن کی۔ مجھے طالبان خان کہا جاتا ہے کیونکہ میں نے اس یک جہتی پالیسی سے اختلاف کیا تھا جو پاکستان کو امریکی دباؤ کی وجہ سے لاگو کرنی پڑی“۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک کلاسیکی مثال ہے کہ صرف فوجی حل کام نہیں کرتا۔ ”امریکہ وہاں پندرہ برس سے فوجی طاقت آزما رہا ہے لیکن ناکام رہا ہے۔ اگر امریکی اور افغان حکومتوں اور ان کے اتحادیوں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ طالبان سے غیر مشروط امن مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فوجی حل ناکام ہو چکا ہے“۔

انتخابات سے پہلے خود اعتمادی کا عالم

”میں اتنا ہی پراعتماد ہوں جتنا میں ہمیشہ رہا ہوں اور پہلے سے زیادہ تیار ہوں“۔ عمران خان نے کہا۔
انتخابات سے پہلے جنگ میڈیا گروپ کی جانب سے کیے گئے سروے میں یہ سامنے آیا کہ تحریک انصاف مقبول ہو رہی ہے۔

پلس کنسلٹنٹ کے سروے میں یہ دکھائی دیا کہ تحریک انصاف تیس فیصد ملک گیر سپورٹ کے ساتھ سب سے آگے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کی حمایت 27 فیصد ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی مقبولیت 17 فیصد ہے۔

گیلپ پول کے ملک گیر سروے کے مطابق مسلم لیگ نون کی حمایت 26 فیصد، تحریک انصاف کی 25 فیصد اور پیپلز پارٹی کی 16 فیصد ہے۔

رائٹرز کے مطابق یہ نئے سروے یہ ظاہرکرتے ہیں کہ 2017 کے مقابلے میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جب مسلم لیگ نون کی حمایت تحریک انصاف کے مقابلے میں آٹھ سے نو فیصد زیادہ تھی۔
”میں نہیں جانتا کہ کیا ہو گا لیکن میں اپنی بائیس سالہ سیاسی زندگی میں اب زیادہ پرامید ہوں“۔ عمران خان نے کہا۔

عمران خان کا یہ انٹرویو آج 5 جولائی 2018 کو روزنامہ ڈان میں شائع کیا گیا ہے جس کا ترجمہ ”ہم سب“ کے قارئین کے لئے اردو میں کیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).