پیرس، لاہور اور جمہوریت


لوگوں نے سابق خادم اعلیٰ پنجاب سے بڑی التجائیں کیں کہ خدارا لاہور کو پیرس نہ بنائیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر فخر عباس نے دہائی دی۔کوئی لاہور کو بچا لو یار ،اس کو پیرس بنانے والے ہیں۔مگر خادم اعلیٰ کب کسی کی سنتے ہیں۔ وہ لاہور کو پیرس بنا کر ہی رہے‘ اور آج پانی پانی پیرس لاہور سے کہہ رہا ہے کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔

ہم میڈیا میں دیکھ رہے ہیں کہ مماثلت ہٰذا کی بنا پر ہر دو شہر بارشوں سے ڈوب گئے ہیں۔ یکساں طور پر سڑکیں دریا کا منظر پیش کر رہی ہیں، جہاں موٹریں پانی میں ڈوبی نظر آتی ہیں‘ اور ان کی جگہ کشتیاں رواں ہیں۔ دونوں شہروں میں جانی اور مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ گویا اب لاہور اور پیرس حقیقی معنوں میں ہم پلہ ہو چکے ہیں؛ تاہم معمولی سا فرق تو رہ ہی جاتا ہے۔

پیرس میں بارشوں سے دریائے سین ابل پڑا اور لاہور میں گٹر، مگر یہ کوئی ایسا خاص فرق نہیں کہ اسے ایشو بنایا جائے۔ اسی طرح صحت و تعلیم، شخصی آزادیوں، تحفظ اور انصاف کی سہولتوں وغیرہ جیسے کئی اور فرق بھی مابین پیرس و لاہور رہ گئے مگر ان سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اصل اور قابل فخر بات یہ ہے کہ دونوں شہر ایک ہی وقت میں بارشوں سے ایسے ڈوبے کہ ان کی سڑکوں پر کشتیاں چل گئیں۔ مراد یہ ہے کہ کوئی غیر معمولی فرق دنیا کے ان دو معروف شہروں کے درمیان باقی نہیں رہا۔

ایشو تو خیر ایک اور معمولی سے فرق کو بھی نہیں بنانا چاہیے، جو خود ہمارے ارباب اختیار نے بطور خاص روا رکھا مگر کیا کیا جائے، آخر ہمیں اخبار کا ادارتی صفحہ بھی تو سیاہ کرنا ہوتا ہے، سو کسی نہ کسی نان ایشو کو ایشو تو بنانا ہی پڑتا ہے۔ معمولی سا فرق یہ روا رکھا گیا کہ لاہور پیرس تو بن گیا مگر جمہوریت ہم نے لاہوری ہی جاری رکھی کہ اس نامراد نظام کے لئے ہر سرزمین کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔

صوبے بھر کا بجٹ میڑو بس، اورنج ٹرین، انڈر پاسز، وسیع سڑکوں اور نکاسیٔ آب کی راہیں مسدود کرنے پر لگا کر لاہور کو مکمل پیرس تو بنا دیا گیا مگر غیروں کا جمہوری دھارا ہم نے ادھارا لینا بھی گوارا نہ کیا۔ شاید اس کار خیر کے پیچھے حکمت یہ کارفرما تھی کہ اپنے تاریخی شہرکی شناخت تو ہم نے اسے پیرس بنا کر گنوا دی مگر اب اپنی شاندار روایات کے تحفظ کے فریضے سے تو پہلوتہی نہ کی جائے۔

اتنا تو کیا ہی جانا چاہیے تھا تاکہ تاریخ اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں عزت و احترام سے یاد کریں، نہ کہ ہمیں بغاوت شعار اور روایت شکن قرار دیں۔ سیلاب جیسی قدرتی آفات تو ہم نہیں روک سکتے مگر طغیانی ٔ جمہور کے آگے بند تو باندھ سکتے ہیں۔ خادم اعلیٰ لاہور کو پیرس بنانے سے باز نہ آئے مگر ہم نے بحیثیت قوم شاندار روایات متذکرہ کو برقرار رکھتے ہوئے ایک اور فرق کا بھی خاص خیال رکھا۔

منقول ہے کہ پیرس کے بدنام زمانہ شانزے لیزے ایونیو کے ایک ریسٹورنٹ میں کسی شب کوئی مغنیہ اس مضمون کا گیت گا رہی تھی کہ یہ شانزے لیزے ہے، یہاں کوئی بھی پارسا نہیں۔ بے شک کوئی نہیں ہو گا مگر لاہور میں اللہ کی مہربانی سے سارے پارسا بستے ہیں۔

یہ واضح فرق لاہورکو پیرس سے ممتاز کرتا ہے۔

جمہوریت کا ذکر چل نکلا ہے تو ہم اپنی کج فہمی بھی آشکار کر دیں۔ اپنی جمہوریت کے بارے میں ہمارا ذاتی علم اتنا محدود ہے کہ ہم آج تک اسے کوڑھ زدہ، چیچک زدہ اور خون چوس جمہوریت ہی سمجھتے رہے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو چیئرمین پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری کا جنہوں نے اسلام آباد میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمیں ملاوٹ والی، سینسر شدہ جمہوریت قبول نہیں…

تیری آواز مکے اور مدینے، گویا ہمارے ہاں ملاوٹ والی اور سینسر شدہ جمہوریت بھی پائی جاتی ہے۔ ہم تو سمجھتے رہے کہ یہاں ملاوٹ شدہ دودھ اور مرچیں وغیرہ ہی پائی جاتی ہیں اور فقط ہمارا کالم ہی سینسر ہوتا ہے مگر آج جنرل نالج میں اضافہ ہوا ہے توخوشی کی انتہا نہیں رہی کہ جمہوریت بھی ملاوٹ اور سینسر شدہ ہوتی ہے۔ پتا نہیں یہ لیڈر ایسی جمہوریت رکھتے کہاں ہیں؟ خود تو چپکے چپکے دیکھ لیتے ہیں اور ہمیں کوڑھ زدہ اور خون چوس جمہوریت پر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔

پچھلے دنوں جب نواز شریف نے کسی خلائی مخلوق والی جمہوریت کا ذکر کیا تھا تو بھی ہمارے جذبات ایسے ہی تھے کہ چلو جمہوریت نہ سہی مگر یہ ہمیں خلائی مخلوق ہی دکھا دیں، جس سے ملاقات کا ہمیں ازحد اشتیاق ہے۔ اب آپ سے کیا چھپانا، ہم اس مخلوق سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کس طرح ہمارا جمہوری اور خصوصاً انتخابی نظام چلاتی ہے؟

ووٹ کی پرچی تو ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے اور مہر بھی، پھر وہ کس ہنر کے بل بوتے پر ہمارے نمائندے منتخب کرتے ہیں؟ ہم ان سے یہ فن سیکھنا چاہتے ہیں کہ جب ریفرنڈم کے دن عوام گھروں سے نہیں نکلتے تو ان کی طرف سے بیلٹ باکس کس طرح بھرے جاتے ہیں کہ شام کو کوئی بھاری اکثریت سے جیت جاتا ہے؟

ہم خلائی مخلوق سے وہ جادو بھی سیکھنا چاہتے ہیں، جس کے زور پر راتوں رات انتخابی نتائج بدل جاتے ہیں تاکہ ہم اپنے پسندیدہ امیدوار کو کامیاب کرا سکیں۔ نیز وہ کیا فارمولا ہے، جس سے ہنگ پارلیمنٹ وجود میں لائی جا سکتی ہے؟ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کلر سیداں میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ یہ الیکشن ہے، کوئی سرکس نہیں۔

ہم کہتے ہیں کہ یہ الیکشن ہے یا سرکس، ہمیں کچھ علم نہیں مگر ان دونوں افعال کے درمیان فرق کو سمجھنا ہمارا حق ہے اور یقیناً اس معاملے میں بھی خلائی مخلوق ہی ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔

ہمیں یہ تو اچھی طرح معلوم ہے کہ دودھ کا ذائقہ دوبالا کرنے اور اس کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے اس میں ڈیٹرجنٹ پائوڈر، بال صفا پائوڈر اور زہریلے کیمیکلز سمیت کئی اشیا کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ ہم ملاوٹ شدہ مرچوں اور دیگراشیائے خورونوش کے فارمولوں سے بھی خوب آشناہیں، مگرہم اپنے علم میں اضافے کی خاطر جاننا چاہتے ہیں کہ جمہوریت میں کن کن چیزوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے اور یہ چیزیں کتنی کتنی مقدار میں ملائی جاتی ہیں تاکہ اس کی تازگی برقرار رہے؟

ہو سکتا ہے کہ جعلی نمائندوں کی ملاوٹ سے یہ نظام چلایا جاتا ہو یا مستند کرپٹ اور چور قسم کے نمائندوں سے بننے والی حکومت ہی کو ملاوٹ شدہ جمہوریت کہا جاتا ہو۔

بنوں میں جلسے سے خطاب کے دوران ایک بات عمران خان نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کسی نامعلوم بندے کے بارے میں کہا ہے کہ مولانا مقناطیس ہر حکومت سے جڑ جاتے ہیں۔ کیا عجب کہ مقناطیسوں والی یہ جمہوریت ہی اصل میں ملاوٹ شدہ جمہوریت کہلاتی ہو۔

ہمیں سینسرشدہ جمہوریت قریب سے دیکھنے کا اس لیے شوق ہے کہ یہ ہمارے کام سے ملتی جلتی نظر آتی ہے۔ اکثر ہمارے کالم کا کوئی نازیبا سا جملہ سینسر کی زد میں آجاتا ہے اور اسے کالم سے نکال دیا جاتا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ممکن ہے ہمارے جملوں کی طرح کا کوئی نامعقول سا نمائندہ اسمبلی میں پہنچ جاتا ہو اور اسے سینسر کر دیا جاتا ہو۔ پھر وہ ان جملوں کی طرح پوچھتا رہتا ہو کہ مجھے کیوں نکالا؟

آپ سے پردہ کوئی نہیں، کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہمارا پورا کالم ہی سینسر کی زد میں آ جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ جب پوری اسمبلی سینسر کرتے ہوئے ٹی وی میرے لذیذ ہم وطنو کا نعرہ مستانہ بلند ہوتا ہے تو وہ بھی نامعقول لوگوں سے پارلیمنٹ خالی کرانے کی کوئی حکمت عملی ہوتی ہو۔ بہرحال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔ اصل صورتحال تو خلائی مخلوق سے ملاقات کے بعدہی سامنے آسکتی ہے، یہ نمائندے تو ہمیں بتانے سے رہے۔ اگرنواب اسلم رئیسانی جیساکوئی دانشورہماراذہنی خلجان دورکرنے کے لیے کہناچاہتا کہ چھوڑوان باتوں کو، جمہوریت توجمہوریت ہوتی ہے، چاہے کوڑھ زدہ ہو یا ملاوٹ شدہ، تو اسے نوید ہو کہ ہم ایسے ٹلنے والے نہیں۔

آج کل ایک اور نان ایشوکو بھی ایشوبنایاجا رہاہے۔ کچھ لوگوں کو جیپ والی جمہوریت کا دورہ پڑگیاہے اوروہ مسلسل اس کی دہائی دے رہے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں بھی جانناضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جیپ پرسوارجمہوریت تو تیزی سے سفرطے کرتی ہے جبکہ عوامی کھٹارا بس پربیٹھ کر تو یہ بیچاری ہچکولے ہی کھاتی رہتی ہے۔ پھر جیپ کے خلاف کیوں شورمچایاجارہاہے؟

آخرمیں زندہ دلانِ لاہورکو اپنا شہر پیرس بن جانے پر درجہ بہ درجہ مبارک باد۔ امید ہے کہ آپ اپنے اپنے گھروں سے بارش کاپانی نکالنے کے بعد یہ دلی مبارک باد قبول فرمائیں گے۔

بشکریہ دنیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).