دوسرا موقعہ


میں مر چکا تھا۔ میرا مردہ اور بے جان جسم میری آنکھوں کے سامنے بیڈ پہ پڑا تھا۔ زندگی کی کوئی رمق اس میں باقی نہیں بچی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے تو میں سونے کے لئے لیٹا تھا۔ بظاہر کوئی ایسی بیماری نہیں تھی مجھے کہ جو جان لیوا ثابت ہوتی۔ مجھے یاد نہیں پڑ رہا تھا کہ آخری بار میں ڈاکٹر کے پاس کسی سنجیدہ مسئلے کے لئے کب گیا۔ پھر یہ کیسے ہو گیا؟ یوں اچانک؟ لیکن جو ہونا تھا اب ہو چکا تھا۔ زندگی اپنا آپ موت کے حوالے کر چکی تھی۔ میری زندگی تھی مگر ایسی ہرجائی نکلی کہ پوچھنا بتانا تو دور کی بات چھوڑ جانے کا کوئی اشارہ تک نہیں دیا تھا۔ میرے جسم نے وہ سرحد پار کر لی تھی کہ مڑ کے دیکھنے پہ ایک قدم پہلے چھوڑا رستہ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ میں اپنے ہی بے جان جسم کو خود دیکھ رہا تھا۔ وہ سینہ جو کچھ دیر پہلے دھڑکنوں سے بھرپور تھا، ساکت ہو چکا تھا۔ میں واقعی مر چکا تھا۔

کچھ افسوس تھے جو باقی رہ گئے تھے۔ تین چار دن ہوئے امّی سے بات نہیں کی تھی۔ کاش آج صبح بات کر لیتا۔ میں کاش انہیں بتا پاتا کہ امّی آج کے بعد میں کال نہیں کر سکوں گا۔ ویسے تو آپ کو فون استعما ل کرنا نہیں آتا مگر آپ نے اتنا ضرور سیکھ لیا تھا کہ چھوٹے نے میری تصویر کے ساتھ جو میرا نمبر محفوظ کر کے دیا تھا اس سے آپ کو کافی آسانی ہو گئی تھی ، مجھے بتانا تھا کہ اب اس تصویر پہ انگوٹھا دبانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ کیوں کہ دوسری طرف میں نہیں ہوں گا ایک خود کار آواز ہو گی جو آپ کو بتائے گی کہ آپ کا مطلوبہ نمبر عارضی طور پہ بند ہے۔ اس عارضی کو عارضی نہ سمجھئے گا۔ مشینوں کو موت کا علم نہیں ہوتا۔ میں کاش ان سے معافی مانگ سکتا۔ ان سے کئی باتوں پہ اختلاف نے جانے کتنی بار لہجے کو بے ادب کیا تھا۔ میں خالی کہ دیتا ماں معاف کر دو۔ اسے یاد بھی نہ ہوتا کس بات کی معافی۔ ماں ہے کب کی بھول گئی ہو گی مگر میں کہ تو دیتا۔

معافی کا وقت گزر چکا تھا۔ اب تو فکر یہ تھی کہ ماں یہ صدمہ کیسے سہے گی۔ ان کے اندر سے تو ابھی تک سالوں پہلے گزر جانے والی بیٹی اور مہینوں پہلے ساتھ چھوڑ جانے والے شوہر کا زخم بھی نہیں بھرا تھا۔ انہیں بہلانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے مگر روز کہیں ناں کہیں سے کوئی یاد ان کی آنکھوں میں ساون چھوڑ جاتی تھی۔ میرا دکھ وہ کیسے سہیں گی۔ میرے بھائی کہ جنہوں نے باپ کے گزر جانے کے بعد سربراہی کی پگ بڑا ہونے کے ناطے میرے سر پر رکھی تھی اور جو ابھی تک اجلی ہے۔ میلی نہیں ہوئی۔ اس پگ کو مٹی میں پھر سے دفن کرنے کا حوصلہ کہاں سے لائیں گے۔ ۔ پتا نہیں انہیں ابھی تک کسی نے بتایا بھی ہے یا نہیں۔ لیکن ابھی تک تو کسی کو پتا بھی نہیں تھا۔ میرے کمرے میں صرف میں ہی تھا اور ابھی تک مجھے ہی معلوم تھا کہ میرا دنیا کا سفر ختم ہو چکا ہے۔

جانے کتنے لوگوں کے ساتھ جانے انجانے زیادتی کی ہو گی، ان کے سامنے میرے حصے کے ہاتھ کون جوڑے گا۔ کچھ پرانے دوست یار، اپنے، پرائے ایسے بھی تھے جو ماضی کی ایک یاد بن کے رہ گئے تھے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو زندگی میں کسی بس میں ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھے مسافروں کی طرح ہوتے ہیں۔ تمام رستے آپ ان سے ڈھیر سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اترتے ہی وہ سیٹ خالی ہو جاتی ہے۔ پھر کوئی نیا مسافراور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ اس سفر میں کوئی بھی ایسی معمولی بات جو ناگواری کا سبب بنی ہو۔ اس بس میں واپس سوار ہو کے آپ اس پہ معذرت نہیں کر سکتے۔ بس وہی ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں مسافر وہی ہوں۔ ان سب کو تو میں ہی جانتا تھا۔ انہیں میری خاطر کون ڈھونڈے گا، کون میری گستاخیوں کے لئے ان کے پاؤں پکڑے گا۔ اب ممکن نہیں تھا۔ مہلت ختم ہو چکی تھی۔ وہ غلطیاں اب غلطیاں ہی رہیں گی۔ انہیں سدھارنے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔

جس کمرے میں میرا بے جان جسم پڑا تھا۔ اس کمرے میں سب سے پہلے میری بیوی داخل ہو گی۔ اگر میں ایسے ہی سب کچھ دیکھتا رہا جیسے میں اپنے جسم کو دیکھ پا رہا ہوں تو اس کی حالت دیکھنا مشکل ہو جائے گی۔ مجھے خود سے اتنا دور جاتا دیکھ کے اس پہ کیا گزرے گی جس نے اللہ سے ہمیشہ صرف دو دعائیں مانگی تھیں۔ یا تو ہمیں اکٹھے مارنا یا پھر مجھے پہلے۔ اس کی دونوں دعائیں قبول نہیں ہوئیں تھیں۔ مجھے پہلے بلا لیا گیا تھا۔ اپنی دعاؤں اور میرا جنازہ اپنے کندھوں پہ وہ کیسے اٹھا پائے گی۔ وہ دو لوگوں کے اونچا بولنے سے گھبرا اٹھتی ہے۔ میری یادوں کے اندر مچتے شور کو کیسے سہے گی۔ کیسے جئے گی۔

مجھے رات کو جاب پہ جانا تھا۔ میں تمام دن نیند پوری نہیں کر سکا تھا۔ کچھ دیر کے لئے یہ سوچ کے لیٹا تھا کہ گہری نیند کا ایک جھونکا بھی رات جاگ کے گذارنے کے لئے کافی ہو گا۔ لیکن یہ آخری نیند ثابت ہو گی کسے علم تھا۔ کچھ چیزیں آن لائن آرڈر کر رکھی تھیں۔ ان کا بھی انتظار تھا۔ سوچا تھا لیپ ٹاپ تبدیل کر لوں گا۔ پہلے والا کافی پرانا ہو گیا تھا۔ یہ بھی سوچا تھا کہ کچھ مہینوں بعد آئی فون بھی اپ گریڈ کروں گا۔ ایک ہفتہ پہلے خریدے گئے میوزک سسٹم پہ فلم دیکھنے کا کتنا مزہ آتا تھا۔ گاڑی بھی کتنی اچھی مل گئی تھی۔ امریکہ آئے ابھی کچھ ماہ ہی گزرے تھے۔ ابھی بہت کچھ دیکھنا باقی تھا۔ کمرے کا پنکھا چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ سب کچھ اپنی جگہ پہ موجود ہے۔ وقت نہیں رکا مگر مجھے وقت کے ساتھ چلنے سے روک دیا گیا تھا۔ میں چلتے پھرتے ہجوم میں اچانک پتھر کر دیا گیا تھا۔ میرے جسم کی گھڑی میں سے روح نام کی بیٹری نکال لی گئی تھی۔ میں یہیں تھا مگر اب یہاں کا نہیں تھا۔ میری مرضیاں چھن گئی تھیں۔ مجھ پہ مرضی لاگو کر دی گئی تھی۔

ابھی فرض باقی تھے۔ عبادتیں قرض تھیں۔ ذکر ادھورے تھے۔ خالق کو منانا تھا۔ گناہوں کی بخشش کی التجائیں کرنی تھیں۔ اسے کھوجنا باقی تھا۔ اپنا اصل ڈھونڈنا تھا۔ مقصد تلاشنا تھا۔ قضائیں ادا کرنی تھیں۔ اپنی مایوسیوں کی توبہ کرنی تھی۔ بندگی باقی تھی۔ زاہد ہونا تھا۔ تقوٰعی کو لباس کرنا تھا۔ اسے کہنا تھا میں نے تجھے مانا ضرور مگر تیری نہیں مانی۔ اپنی منوانے کی گستاخیوں کی قیمت چکانی تھی۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ سب دروازے تو بند ہو گئے۔ اب تو رستہ صرف آگے کا ہے۔ اب تو بھگتنا ہے۔ حساب دینا ہے۔ سوال ختم ہوئے، خالی جواب باقی ہیں۔ اب اگلی منزل تو قبر ہے۔ گھپ اندھیرا، تنگ دیواریں، سفید کفن، بندھے ہاتھ، تنہائی، خاموشی، مجھے شدید خوف آنے لگا، میں ابھی تیار نہیں تھا۔ اپنے خالق و مالک کا سامنا کرنے کا اہل نہیں تھا۔ میری اس امتحان کی تیاری پوری نہیں تھی۔ مجھے ابھی نہیں جانا۔ مجھے مہلت چاہیے، مجھے کچھ وقت اور چاہیے۔ میرے اللہ مجھے تھوڑا سا وقت اور دے دے۔ خوف کی شدت اور بے بسی سے میری ہچکی بندھ گئی، میں رونے لگا، گڑ گڑا گڑگڑا کے اللہ سے وقت مانگنے لگا۔ مجھے ایک موقعہ اور دے دے۔ مجھے احساس تھا اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ زندگی کی دوسری باری نہیں ہوتی لیکن نہ میرے آنسو رک رہے تھے نہ گذارش۔ اے میرے پروردگار، مجھے بس ایک موقعہ اور دے دے، بس ایک موقعہ اور۔ روتے روتے اچانک میرے جسم کو جھٹکا سا لگا اور اسی جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔

میرے لئے یہ خواب نہیں تھا۔ مجھے جاگنے کے بعد بھی لگا کہ جیسے میں قبر سے واپس آیا ہوں۔ وہ تو قادر ہے۔ مار کے بھی زندگی دے سکتا ہے۔ اگر میں مرا نہیں بھی تھا تو بھی مجھے موت کا ذائقہ چکھا دیا گیا تھا۔ زندگی کی حقیقت اتنی ہی تو ہے۔ اگلی نیند آخری ہو سکتی ہے۔ موت دبے پاؤں آ ئے یا اعلان کر کے، یہ اس کی صوابدید ہےوگرنہ موت اور زندگی کے بیچ ایک لمحے کا ہی تو فاصلہ ہے، اور اگر ہر اضافی لمحے کو آخری سمجھ کے جیا جائے تو دوسرے موقعہ کے لئے خدا کے سامنے گڑگڑانے کی کبھی ضرورت نہ پڑے۔ یہ خواب نہیں تھا، حقیقت میں ایک دوسرا موقعہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).