تاریکی اور ضیا۔۔۔تاریخی تناظر میں


بہت سے لوگ اب بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اکتالیس سال گزر گئے، ابھی تک جنرل ضیا کی بات ہورہی ہوتی ہے، کہا جارہا ہوتا ہے کہ ضیا زندہ ہے، وہ کیسے زندہ ہے؟ 1988 میں جنرل ضیا جہازحادثے میں مارے گئے تھے، اب دو ہزار اٹھارہ آگیا ہے، مطلب جنرل ضیا کو دنیا چھوڑے ہوئے بھی اکتیس سال ہو گئے ہیں۔ درجنوں حکومتیں آئیں اور چلی گئی، لیکن آج بھی کہا جاتا ہے کہ ہر مسئلہ جنرل ضیا کی وجہ سے ہے؟ ایسا کیوں؟ پاکستان کے معروف دانشور آئی اے رحمان نے دوہزار سترہ میں ایک آرٹیکل تحریر کیا تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ حقیقت میں سابق آمرجنرل ضیا کا کوئی قصور نہیں تھا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ضیا نے تو وہ پنیری ہی نہیں بوئی تھی، ان کو تو مواد اکٹھا کرکے دیا گیا، بیج تو کسی اور نے بویا تھا، انہوں نے تو صرف پودے کی پرورش کی، جو ایک گھنا درخت بنا اور آج ہم سب اسی برگد کے گھنے درخت کے گرد یر غمال بنے بیٹھے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ پنیری کیا تھی، کیوں کنفیوژن پیدا ہوئی، کیسے پیدا ہوئی؟ پاکستان کے عظیم لیڈر جناح صاحب کے بارے میں تاریخ دان یہی کہتے ہیں کہ وہ ہر طرح کی بات کرتے تھے۔ جناح صاحب ڈیموکریسی کی بات بھی کرتے تھے، قومی ریاست کی بات بھی کرتے تھے، اسلامک سوشلزم اور اسلامک ڈیموکریسی کے حوالے سے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ یہ بھی تاریخ کے حوالے سے ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کو پاکستان بننے تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اس نئے ملک کا آئین کیا ہوگا، کونسے اصولوں اور ضوابط کی بنیاد پر ریاست کا ڈھانچہ کھڑا کیا جائے گا؟ جب 14 یا 15 اگست کو پاکستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا یعنی پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ اس کے بعد بھی آئین پاکستان کے حوالے سے خاموشی تھی۔ ہر ایک بھانت بھانت کی بولی بول رہا تھا۔

جناح صاحب نے اسی حوالے سے 11 اگست کی تقریر کی، اس تقریر میں انہوں نے کسی حد تک ریاست پاکستان کا نظریہ پیش کیا، اس نظریے میں جدید قومی ریاست کا تصور تھا۔ ترقی پسند حلقے قائد اعظم کی اس تقریر کو پاکستان کے وژن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس تقریر میں جناح صاحب نے فرمایا تھا کہ ’آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوگی۔ سب شہری برابر ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، عقیدے، رنگ و نسل سے کیوں نہ ہو۔

قائد اعظم نے اس تقریر میں پاکستانیت پر زور رکھا ہے اور بتایا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ معاملہ جناح صاحب کی گیارہ اگست کی تقریر پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ اس کے بعد بھی جناح صاحب بہت سی مختلف باتیں کیں۔ انہوں نے کئی موقعوں پر اسلامی ریاست کی بھی بات کی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کنفیوژن ختم نہیں ہوا۔

دوسری طرف اسلامی تنظیموں کا ایک کیمپ بھی تھا۔ یعنی جماعت اسلامی، جمعیت علمائے ہند جو پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کے خلاف تھے، جو یہ کہتے رہے کہ پاکستان بنا تو یہ ایک ناجائز ریاست ہوگی، یہ پاکستان نہیں کفرستان ہوگا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا، ان اسلامی تنظیموں کے گروہ یہاں پر آگئے۔ ان کی قیادت یہاں پر آگئی۔ اب ان تمام نے کہا کہ اب پاکستان ویسا ہوگا جیسا وہ سوچتے ہیں، وہ اپنی مرضی کی اسلامی ریاست بنائیں گے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ قرار داد مقاصد جناح صاحب کے انتقال کے بعد کیوں منظور کی گئی، قرار داد مقاصد 1949میں منظور کی گئی جبکہ جناح صاحب 1948 کو انتقال کر گئے، آخر کیوں یہ قرارداد ان کی زندگی میں نہیں منظور کی گئی؟ تاریخ دانوں کے مطابق یہیں سے پاکستان میں ایک نئے کھیل کا آغاز ہوا۔

پاکستان آرمی برٹش آرمی کی وارث تھی، سیکولر اور مغربی روایات میں ڈھلی ہوئی تھی، بیورکریسی آئی سی ایس افسران پر مشتمل تھی۔ اس وقت آرمی اور بیورکریسی مغربی جمہوریت اور مغربی آمریت کے بارے میں بخوبی واقف تھی۔ انہیں مذہبی ریاست کے بارے میں علم نہیں تھا۔ اسی لئے آرمی اور بیوروکریسی مذہبی جماعتوں کے ساتھ سختی سے پیش آئی۔ اسی حوالے سے ریفرنس کے طور پر 1953 کا مارشل ہم سب کو یاد ہے؟ ایوب خان بھی برٹش آرمی کے رنگ میں رنگے تھے۔ 1962 میں ایوب خان نے جو آئین دیا اس میں پاکستان کی شناخت تھی ڈیموکریٹک ریپبلک آف پاکستان۔ لیکن ایوب خان نے اس وقت کی میچور سیاسی کلاس کو سیاست سے فارغ کردیا۔ اسی لئے ایک خلا پیدا ہوا جس سے مذہبی جماعتوں کے لئے ماحول سازگار بننا شروع ہوا۔ جناح صاحب کی ہمشیرہ فاطمہ جناح صاحبہ کی الیکشن کمپین کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کہاں کہاں سے ان کے لئے کیا کچھ کہا گیا اور اس کے کیا مقاصد تھے؟

اس کے بعد 1970 کا الیکشن آتا ہے، اب مذہبی جماعتوں کو یقین تھا کہ بھاری اکثریت سے الیکٹورل پولیٹیکس میں کامیاب ہوجائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کچھ سیٹیں ہی ان کے ہاتھ لگیں۔ لیکن المیہ یہ ہوا کہ پاکستان ٹوٹ گیا۔ اب بھٹو صاحب مزید تفرقہ یا ہنگامہ برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ نیا آئین بنا، اسلامی نظریاتی کونسل تخلیق کی گئی۔ 1973 کا آئین بنا جو کچھ گھنٹوں کے بعد معطل بھی ہوگیا۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ بھٹو لیفٹسٹ اور سوشلسٹ تھا یا کم از کم ایسا کہتا تھا، لیکن 1973 کا آئین بھٹو کے وژن سے مختلف تھا۔ اسی وجہ سے تمام ترقی پسند، لیفٹسٹ اور لبرل بھٹو صاحب سے دور ہوتے چلے گئے۔ 1977 کے الیکشن تک بھٹو تمام لبرل، لیفٹسٹ اور روشن خیال طبقے کو اپنے آپ سے دور کر چکا تھا، یہاں تک کہ ان لبرلز پر تشدد تک کیا گیا، انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور یہ سب کچھ بھٹو کے دور میں ہوا تھا۔ تمام روشن خیال بھٹو کی پالیسیون کی وجہ سے کھڈے لائن لگ گئے تھے۔

پھر پانچ جولائی 1977 کا مارشل لا لگا۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور مذہبی سیاسی جماعتیں ایک پیج پر تھی۔ جنرل ضیا کیوں کہ اکیلا تھا اور اکیلا آمر کچھ نہیں کر سکتا، اسے ایک طاقتور گروہ یا گروپ کی ضرورت تھی۔ ان مذہبی جماعتوں کے گروپ کے ساتھ ملکر ضیا صاحب نے کام دیکھانا شروع کردیا، چھوٹے سے پودے کو کھاد اور پانی فراہم کرنا شروع کردیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے تناور برگد بن گیا، وہی برگد کا درخت جس کی چھاوں میں ہم آج ہیں۔

یہ تو ایک حقیقت ہے کہ بیج ضیا نے نہیں بویا تھا۔ اب ضیا کے ساتھ ایک ایسی کلاس تھی جس کو تیس سال سے پاوں جمانے کا موقع نہیں مل رہا تھا جو اب انہیں مل گیا۔ اس کلاس اور ضیا کا ایک فطری اتحاد بن گیا۔ اوپر سے افغان جنگ بھی نازل ہو گئی، سونے پر سہاگہ ہو گیا۔ مذہبی جماعتیں اور مدارس اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی ضرورت بن گئے۔ اب امریکہ کو بھی اس فرسٹ دفاعی لائن کی ضرورت تھی، امریکہ نے بھی ان کی نشوونما کرنا شروع کردی۔ سعودی عرب کی سپورٹ بھی حاصل تھی، اس لئے پھر جنرل ضیا نے اس کلاس کے ساتھ مل کر وہ کیا جس کا خیمازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ اب ضیا کو ختم کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے کیونکہ اب ہر شعبے میں ایک ضیا بیٹھا ہے۔ سیاسی کلاس چاہے وہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو، کہیں نہ کہیں ضیا بیٹھا ہے۔ آیئے مل کر سوچیں کہ کیسے اس گھمبیر مسئلے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).