بارے کچھ چائے کا بیاں ہو جائے


چائے کے حوالے سے آجکل سوشل میڈیا پر ہم وطن متوالوں میں کافی شدومد پائی جاتی ہے اور ایک غلغلہ اٹھا ہے کہ اسے قومی مشروب کا درجہ دیا جائے مگر ایسے میں گورے لوگ قطاع الطریق بنے ایک مدت سے ہمارے ارمانوں کے راستے میں حائل ہیں ان ناخلفوں کا کہنا ہے کہ چائے تو سرے سے مشروپ کے زمرے میں آتی ہی نہیں، یہ تو وہ بات ہوئی ’بندر کیا جانے ادرک کا سواد‘

ارے چھوڑئیے نا وہ کندہ نا تراش تو دو صدیوں سے برصغیر والوں کو گھاگس اور ٹھوٹھ سمجھتے آئے ہیں اور خود کو بلعم باعورگردانتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے بھی ٹھان لی کہ اب تو چائے کے فوائد کی ایک ضخیم کتاب لکھ کر ہی دم لیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان گورے نابکاروں کی تھوتھنی بند کر ڈالیں گے چنانچہ ہم نکل کھڑے ہوئے تلاش بسیار میں۔

گوگل بابا کی منت وسماجت کی، اعلٰی پایا کے حکیموں اور ڈاکٹروں سے دریافت کیا، بڑے بڑے صاحبِ علم لوگوں کے ترلے کیے کہآخر اس چائے کا فائدہ کیا ہے مگر جواب ندارد اور تلاش بے نیل مرام۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ کام صرف ہوتا ہوا اچھا لگتا ہے کرنا کس کو اچھا لگتا ہے بالکل اسی طریق پر چائے صرف تصاویر میں ہی اچھی لگتی ہے۔ اس طرح ہم پر پہلی دفعہ یہ بھید کھلا کہ اس مستزاد کے تو ڈھیروں نقصانات ہیں۔ آئیے آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

تعریف:۔
یوں تو کہنے کو دودھ، پتی اور چینی کے آمیزے کو چائے کہتے ہیں جسے آتش فشانی کے عمل سے گزار کر گرم سیال مادے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

مزید تعریف مقصود ہو تو ’واہ!واہ! بھئی واہ کیا کہنے! ‘کہہ لیجیے۔

تاریخ:۔

جہاں تک چائے کی تاریخ کا سوال ہے تویہ کافی حد تک مخدوش ہے۔ ہاں! بھلے وقتوں میں اس کا انتخاب صرف ادھیڑ عمر کے حضرات تک ہی محدود تھا جنہیں شاید اپنے پھیپھڑوں اور معدہ کے ساتھ ساتھ خوراک کی گزرگاہ کی بھی سرزنش کرنا مقصود ہوتا۔ جبکہ نو عمروں کو اس سیال مائع سے قطعی طور پر دور رکھا جاتا تھا اور زیادہ فرمائش کی صورت میں انہیں خوب پھٹکار پلائی جاتی مثلاً یہ کہ میاں اپنی عمر دیکھو اور اپنے شوق دیکھو

ہاں اگرگھر کے اعلٰی حکام کا مزاج ٹھیک ہو تو مذکورہ بالا پوند کو دودھ پتی پر ہی ٹر خا دیا جاتا تھا مگر پھر بھی چائے جیسی افتاد سے لاتعلق ہی رکھا جاتا۔
مگر آج کل حالات کچھ نازک صورت حال اختیار کر چکے ہیں کیونکہ چائے کے شائقین میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جنمیں سے بڑی تعداد آج کل کے نو عمرلونڈوں کی ہے۔
کچھ متوالوں کے نزدیک دھوکے کے بعد آنکھیں کھولنے کے لیے چائے کی ایجاد سرِ فہرست ہے۔
ان نابکاروں میں سے بہت سوں کے نزدیک تو چائے سے مراد ایسی شے ہے جس سے مراد آرام وسکون، وٹامن، پروٹین، توانائی نیزہر وہ شے جو جسم کو نفع دیتی ہے، ’لا حول ولاقوت‘

اور تو اور آج کل تو چائے سے محبت کے اظہار میں کچھ لوگ یوں مدح سرائی کرتے ہوئے سر دھنتے نظر آتے ہیں گویا چائے ناہوئی قلوپطرہ ہوگئی۔ جی وہی مصری خاتون جن کے ابا جان کی سرمے کی کانیں تھیں اور ان کے حسن کے قصیدے پڑتے لوگ نہ تھکتے تھے خیر اس زمانے میں لوگوں کا اور کام بھی کیا ہوا کرتا تھا۔

خیر اگر کسی دوسرے بر اعظم کا باشندہ چائے کی اس قدر مقبولیت دیکھ کر اسے حلق سے نیچے اتارنے کی صریح غلطی کر گزرے گاتو وہ یقیناً اس خطے کے لوگوں کو خبطی نہیں تو دیوانہ ضرور تصور کر ے گا۔

بجنسہِ اچنبھے کی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا شائقین نو عمروں میں ایک بڑی تعداد ان وجود زن کی بھی ہے جن پر آجکل دبلے ہونے کا بھوت سوار ہے اور سبز چائے ان کے لیے آب حیات کا درجہ رکھتی ہے حالانکہ اگر آپ ان محترماؤں کی ظاہری حالت ملاحظہ فرما لیں تو یقیناً آپ کو غشی کا دورہ نہیں تو طویل دورانیے کا ایک چکر ضرور آ جائے گا کہ میاں یہ ادھ موئی ڈھانچہ نما چیز بھلا کیونکر انسانوں کے درمیان منڈلاتی پھر رہی ہے، خواتین کی ایسی شکستہ حالی کو دیکھکر تو یوں ہی لگتا ہے کہ جیسے عورت نامی شے جلد ہی اس کرہ سے ناپید ہو جائے گی مگر چند بھاری بھرکم مردانہ صحت کی حامل خواتین کو دیکھ کریہ خیال رفع ہوجاتا ہے۔

فوائد:۔

چائے کے فوائد کے اعتبار سے بندۂ ناچیز کے کچھ تحفظات ہیں، ابھی دودھ کو لے لیجیے غذائیت سے بھرپور ہے، اس سے اخذ کی گئی لسّی کو ہی لے لیجیے بھلے غنودگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے مگر اپنے اندر بہر حال کافی غذائیت سموئے ہوئے ہے، دیگرمشروبات میں سے شربت کو لے لیجیے گرمی کا سد باب کرتے ہیں، معدہ کی تیزابیت کو بھگاتے ہیں، راحت کا احساس دلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مگرہم آج تک یہ جاننے سے قاصر رہے ہیں کہ اس چائے نامی شے کے فوائد کیا ہیں؟ اس پر ایک نابکار طالب علم جیکڑا کے بولے بھئی بندہ سستی اور کسالت سے بچا رہتا ہے اور نیند غلبہ نہیں پاتی نتیجتاً پڑھائی پر دھیان زیادہ مرکوز رہتاہے تو میاں اگر ایسی ہی بات ہے تو ہماری والدہ محترمہ کی کڑوی کسیلی پھٹکار برسوں ہمارے لیے چائے کے فرائض سر انجام دیتی رہی ہے۔

اب آپ ہمارے زمانۂ طالب علمی کی ہی مثال لے لیجیے، ہمارے مطالعے کے لیے ہمیں ایک کمرہ مختص کیا گیا تھا جس میں ہم خوبشانِ بے نیازی کے ساتھ ورق گردانی کیا کرتے تھے اب ہمارے ہم ذوق احباب اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ رات کے اوقاتمیں کسی نقطے کو سمجھتے سمجھتے آنکھوں کی بالائی پلکوں کا کتاب کے الفاظ کی تکریم میں سر بسجود ہو جانا کوئی بہت زیادہ اچنبھے کی بات تو نہیں ہے، ہا ں البتہ عین اسی وقت میں سپرینڈینٹ صاحبہ (والدہ محترمہ) کا غیر متوقع طور پر وہاں آن دھمکنا کسی سانحے سے کم ثابت نہ ہوتا حالانکہ ہم تو ذرا گہرائی میں جاکر سوچ ہی رہے ہوتے تھے مگر توبہ! اس معمولی سی بات پر ایسی پھٹکار کہ واللّٰہ گھنٹوں نیند جیسی افتاد ہمارے آس پاس بھی نہ پھٹکتی تھی اور چونکہ اس تقریر میں ایوانِ بالا کی طرف سے ہماری دن بھر کی آوارہ گردیوں اور کھیلنے کودنے سمیت دن کے تمام معمولات پر دل کھول کر تنقید کی جاتی۔ لہٰذا اگلے دو چار روز ہم اس ڈرسے ہی نہایت مستعدی اور انہماک کے ساتھ مطالعہ کرتے رہتے کہ کہیں ہمارے بیرونی دوروں پر پابندی عائد نہ ہو سکے اور ہم سارادن اسی جاہ و جلال سے گلیوں میں مٹر گشتی فرما سکیں۔

بنانے کا طریقہ:۔

جہاں تک چائے کو بنانے کا تعلق ہے تو اس اعتبار سے اس کی دو اقسام ہیں

بڑے گھرانوں میں پتی، چینی اور دودھ کا تعین آپ اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں اس طریق کار میں گرم پانی میں دودھ اور چینی ڈالنے کے بعد پتی والے بستے کو اس وقت تک غوطہ زن رکھا جاتا ہے جب تک اس کا رنگ ما بدولت کی خواہش کی پیروکاری نا کرنے لگ جائے۔

مگر نچلے درجے کے گھرانوں میں اس سلسلے میں کچھ قباحت پائی جاتی ہے جیسے ایک نئی نویلی پڑھی لکھی دلہن گھر آئی اوراپنی ساس سے پہلے دن ہی چپقلش ہوگئی کہ ہائے ہائے بہو پہلے دن ہی میرے بیٹے کی چائے میں تعویز گھولنے بیٹھ گئی، نا گفتہ بہ کہیں کی وہ تو صاحب بہادر کچھ ذی فہم تھے تو کچھ بیچ بچاؤ کروالیا۔

لہٰذا ایسے میں متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں میں مندرجہ بالا چونچلے نہیں کیے جاتے اور چائے کے تمام اجزائے مرکبی کا تعین خاتونِ خانہ کی منشا کے مطابق ہی کیا جاتا ہے اور ایسے میں اگر چائے میں کوئی کوتہی سرزد ہو جائے تو مہمان حضرات کو بہرصورت یہ تمام تر سیال مائع بلا چون و چرا اپنے حلق سے نیچے اتارنا ہی پڑتا ہے ہاں البتہ ایسے احباب جنہیں بیرون مہمان خانے میں ٹھہرایا جاتا ہے وہ ناپسندیدگی کی صورت میں اس مائع کو بیسن کے حلق میں بھی انڈیل سکتے ہیں جبکہ دیگر افراد اس کارِ خیر سے مستثنٰی رہتے ہیں۔

رنگت کے اعتبار سے اقسام:۔

رنگت کے اعتبارسے اس کی تین انواع ہو سکتی ہیں“

پہلی نوع کا تعلق سفید فام روسی قبیلے سی بھی ہو سکتا جس کو مقامی اصطلاح کے مطابق دودھ پتی کا نام دیا جاتا ہے۔

دوئم قسم میں اس کی رنگت ایشیائی لوگوں سے مماثلت رکھ سکتی ہے۔

سوئم درجے میں سیاہ فام حبشی نسل آ جاتی ہے جو کہ صومالیہ کے باشندوں کے گردن کی رنگت کی ہوسکتی ہے اور اس نصیبوں جلی کو جو کہ رنگت کے اعتبار سے قہوے سے ایک ثانیہ ہی پیچھے رہ گئی ہوتی ہے اور جس کے لیے ایک محاورے کا استعمالبھی کیا جاتا ہے “ پتی چینی تیز اور دودھ کا پرہیز“۔ ایسی چائے عموماً ٹرک ڈرائیوروں والے ڈھابے میں دستیاب ہوتی ہے۔

یہاں ایک بات واضع رہے کہ دودھ پتی بھی دو طرح کی ہوسکتی ہے

جیسے کہ گھروں میں دودھ میں ہلکی سی پتی کا اضافہ کرکے دودھ پتی تیار کی جاتی ہے جبکہ ہوٹل حکام سے اگر آپ دودھ پتی کا مطالبہ کریں گے تو اول تو ان کے کان پہ جوں تک نہ رینگے گی چنانچہ آپ کی خدمت میں چائے ہی پیش کی جائے گی محض اسمِ گرامیتبدیل کیا جائے گا مگر اگر آپ جز بز ہو جائیں تو اس صورت میں بھی ہوٹلوں کے زائچے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی تو واقع نہیں ہوتی ہاں البتہ کم پتی ڈال کر مذکورہ بالا اہداف حاصل کر لیے جاتے ہیں مگر دودھ کی حرمت و تقدس کو ہر صورت بالائے طاق رکھاجاتا ہے۔

مگر مندرجہ بالا تمام قباحتوں کے باوجود چائے اپنے پینے والوں کے لیے ایک ایسا نشہ بن چکا ہے جو چائے کے معاملے میں حد درجہ نشئی ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے کہ جرمنی کے مشہورفلسفی کانٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وقت کا اتنا پابند تھا کہ لوگاس کو دیکھ کر اپنی گھڑیاں ٹھیک کر لیتے تھے عین اسی طرح کچھ صاحب بہادر چائے کے معاملے میں اس قدر دقیانوس ثابت ہوتے ہیں کہ ادھر گھڑیال نے دس بجائے ادھر موصوف دفتر سے کھسکے اور کینٹین میں جا دھمکے ادھر چار بجے اور ادھر بیگم کے درپے ہوگئے کہ چائے کدھر رہ گئی۔

خیر چائے کے حوالے سے ہم صرف اتنا کہیں گے کہ غالب اگر اس دور میں ہوتے تو ضرور کہتے کہ چائے اچھی ہو اور تھوڑی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).