ہائے بشیرا


(مرحوم ابن انشا نے ذیل کی نظم سید سبط حسن کے دیرینہ ملازم بشیر عرف بشیرا کی شان میں ارزاں کی تھی۔ ابن انشا 1978 میں انتقال کر گئے تھے۔ حالیہ صورت حال سے کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہو گی)

ہم نے کل جب دل کو چیرا

صبر کا پایا ختم ذخیرہ

جیب میں بھی اب پونڈ نہ لیرا

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

جب ہم دس کا نوٹ دکھائیں

تب اک گوشت کا ٹکڑا پائیں

وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

ساڑھے چھ میں اک خربوزہ

آٹھ روپے میں آدھا چوزہ

ڈیڑھ روپے کا چھوٹا کھیرا

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

ہوٹل ووٹل ٹیکسیاں کاریں

سبھی ہماری کھال اُتاریں

جان کے آغا خان کا نبیرہ

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

سات روپےمیں بال کٹا کر

گھاٹ پہ خود لادی لے جا کر

روئے بیٹھ کے بھگت کبیرا

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

کون ہمارا شو چمکائے

صبح سویرے چائے لائے

دل اپنا بے حد دلگیرا

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

تن میں اپنے جان نہیں ہے

منہ میں اپنے پان نہیں ہے

کیسا زردہ ؟ کون خمیرہ؟

ہائے بشیرا ہائے بشیرا

جان بچے تو لاکھوں پائیں

خیر سے اب ہم گھر کو جائیں

دیکھ لیا یورپ کا وطیرہ

ہائے بشیرا ہائے بشیرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).