خدشات بڑھیں گے الیکشن سے حالات نہیں بدلیں گے


اگر آپ سانس تھامے 25جولائی کے دن ہونے والے انتخابات کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں اور اگر آپ کا خیال ہے کہ ان نتائج سے سیاست کے کئی دھندلکے چھٹ جائیں گے تو گزارش ہے کہ دھیرج رکھئے۔ اس انتخابی مہم اور سیاسی معرکہ آرائی کے کئی نتائج ایسے ہیں جن کا اعلان کسی مقررہ تاریخ کونہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کے فیصلے اپنا اثر ڈال رہے ہیں ۔

مطلب یہ کہ ساری توجہ تو انتخابات پر ہے لیکن مقامات آہ وفغاں اور بھی ہیں۔ یہ بات تو ہمیں شاعر نے سمجھائی تھی کہ جن حادثوں کی وقت پرورش کرتا ہے وہ اپنے اپنے وقت پر رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہم شاید نہیں جانتے کہ جو وقت گزر رہا ہے وہ کن حادثوں کی پرورش کررہا ہے اور یہ بھی کہ وہ حادثے کتنے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں۔

عام حالات میں اور مسلسل چلتی رہنے والی جمہوریتوں میں بھی عام انتخابات پورے ملک کو ہلا کررکھ دیتے ہیں۔ ہمارے2018کے انتخابات کا درجہ بہت بلند ہے۔ ہماری تاریخ کی دھوپ چھائوں بظاہر جمہوری اور اعلانیہ فوجی حکمرانی پر مشتمل ہے۔اور ان دنوں کا سیاسی موسم کچھ ایسا ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کتنی دھوپ ہے اور کتنی چھائوں ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ واضح نہیں ہے کہ کس کا کتنا اختیار ہے۔ البتہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ان انتخابات نے پاکستان کے اداروں، پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عام شہریوں کو ایک مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے کہ وہ ان پہیلی دنوں میں اپنے کردار اور اپنے عمل کا حساب کب اور کیسے دیں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس دفعہ وفاداریوں کی تبدیلی کی لہر ایک طوفان بن کر اٹھی ہے.

 حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم اور امیدواروں کی فہرست کی تکمیل کے بعد بھی کئی اہم رہنمائوں کو اپنی پرانی پارٹی سے انحراف کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اب یہ دیکھئے کہ جمعرات کے دن عمران خاں نے مسلم لیگ ’ن‘ کے ستارے ظفر علی شاہ کو اپنی جماعت کے خیمے میں جگہ دی ۔اس موقع پر ظفر علی شاہ نے صبر وضبط کے ساتھ اپنے نئے لیڈر کو یہ کہتے سنا کہ نواز شریف، اڈیالہ جیل تمہارا انتظار کررہی ہے۔

جمعرات ہی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پرسنل سیکرٹری فواد حسن فواد کو گرفتار کرلیا گیا ۔ گویا ایک نہیں کئی محاذ گرم ہیں۔ ان آزاد امیدواروں کی گنتی100سے اوپر ہے کہ جو جیپ کا انتخابی نشان لے کر میدان میں اترے ہیں۔ بہت زمانے پہلے ہم نے یہ جانا تھا کہ جیپ ناہموار راستوں پر چلتی چلی جاتی ہے۔ اور وہ اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اس پر جتنے لوگ چاہیں چڑھ جائیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب ، کسی بھی سواری پر اور کسی بھی رنگ کا پرچم اٹھا کر آخر جا کہاں رہے ہیں۔ پارٹی کو تبدیل کردینے کا ایک مطلب یہ ہے کہ مسافر نے اپنا راستہ بدل دیا۔ آخر ہر سیاسی جماعت یا اس کے لیڈر کا اپنا ایک نظریہ ہوتا ہے۔ ایک سوچ ہوتی ہے۔ ایک خواب ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کے لئے یہ ممکن ہے اور جائز بھی کہ وہ حالات اور اپنی سمجھ کے مطابق اپنی رائے اور اپنی جماعت بدل دے ۔

ایک آزاد، جمہوری فضا میں اس نوعیت کی آمد ورفت کسی حیرانی کاسبب نہیں ہوتی۔ ایک عدالت کسی کے اپنے ضمیر کی ہوتی ہے کہ جس کے فیصلے کسی شرمندگی یا وضاحت کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن گزشتہ چند مہینوں میں ہم نے عوام کی نمائندگی کو اپنا موروثی حق سمجھنے والوں کے جو کرتب دیکھے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی جمہوریت جانے اور انجانے خطرات میں گھر گئی ہے۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ جواس پر حملہ کررہے ہیں وہی اس کی حفاظت کا دم بھرتے ہیں۔ وفاداریوں کی یہ سودے بازی میری نظر میں ایک تمثیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ موسمی تبدیلی کے بارے میں آپ پڑھتے رہے ہونگے کہ کیسے پوری دنیا کے ماحول کو اس سے خطرہ ہے۔

اب ہم پانی کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ مان رہے ہیں۔

پاکستان کا سیاسی موسم بھی ایسی تبدیلی کی زد میں ہے کہ جسے بنیادی نوعیت کی آلودگیوں کی ایک نشانی سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی ایسی ہوائیں چل رہی ہیں اور ایسے طوفان اٹھ رہے ہیں کہ جوآنکھوں سے دکھائی نہیں دیتے ۔ ایک پورا معاشرہ اور ایک اتنا بڑا ملک انتخابات کے ہیجان میں نہ جانے کس راہ پر گامزن ہے اور یہ طے نہیں کہ اس کا رہبر کون ہے۔

آپ کہیں گے کہ اس کا فیصلہ تو عوام کریں گے ۔ اپنے ووٹ کی قوت سے ۔ لیکن اگر عوام کو بہلانے اور بہکانے کا سلسلہ جاری رہے کہ وفاداریوں کی تبدیلی جس کا ایک حربہ ہے تو پھر ایسے جمہوری عمل پر کوئی کیسے اور کتنا بھروسہ کرسکتا ہے۔

ان پیچیدگیوں میں کوئی بات سہل اور سادہ دکھائی نہیں دیتی ۔ پھر بھی جمعرات کے دن ایک انگریزی اخبار نے عمران خاں کے اس بیان کونمایاں جگہ دی کہ ، ’’ الیکٹ ایبلز‘‘ اور پیسے کے بغیر آپ جیت نہیں سکتے۔ اب آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ ’ الیکٹ ایبلزکہاں سے آتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کی دولت کہ جو الیکشن کی ضرورت ہے کہاں سے آتی ہے۔ وہ کہاوت یاد آتی ہے کہ جو آپ بوئیں گے وہی آپ کاٹیں گے۔

اور یہ بھی کہتے ہیں کہ کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے ہوں۔ لیکن یہاں زراعت یا محکمہ زراعت کے بارے میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں۔

جو بات میں نے شروع میں کہی اس کی کچھ تشریح شاید ضروری ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو تنازعے کھڑے ہوچکے ہیں ان کا حل انتخابات کے نتائج کی صورت میں ممکن نہیں رہا۔ پاکستان کی تاریخ کے کئی بنیادی تضادات انتخابی سیاست کے الائو میں سلگ رہے ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ جو باتیں عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہیں نتائج کے بعد زیادہ واضح ہوجائیں۔ ایک اور تشویش کبھی کبھی سر اٹھاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ سیاست میں ایک ہفتہ بھی طویل ہوتا ہے۔ 25جولائی کتنے دن دور ہے، گن لیجئے۔ اور ہرروز کوئی نہ کوئی بڑی خبر بن سکتی ہے۔

کئی لوگ ، ایسے رازدارانہ انداز میں کہ جیسے انہیں اندر کی بات معلوم ہو ، یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات ملتوی ہوسکتے ہیں وہ ایک خوفناک احتساب اور نظام میں تبدیلی کی امیدلگائے بیٹھے ہیں۔ یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کی کشمکش نے ملک کی ترقی اور سماجی انصاف کا راستہ روکا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ عوام کسی پر بھی اعتماد نہیں کرتے ۔

اگر یہ دکھائی دے کہ احتساب کی مداخلت جانبداری پر مبنی ہے تومعاشرتی اور ذہنی افراتفری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں دوباتیں مجھے بہت اہم لگتی ہیں۔ایک تو یہ کہ سیاست سے قطع نظر، ملک ایک معاشی بحران کا شکار ہے۔ سفارتی سطح پر اس کی تنہائی چھپائے نہیں چھپتی۔

ان حالات میں اداروں کی کمزوری یا بے راہ روی اپنی جگہ ایسے نتائج پیدا کرسکتی ہے کہ جو ناقابل برداشت ہوں دوسری بات کا تفصیل سے کہنا مشکل ہے۔ اور وہ ہے ان انتخابات میں نئی مذہبی جماعتوں اور انتہا پسند عناصر کی شرکت۔ جو نعرے لگائے جارہے ہیں اور جو باتیں کہی جارہی ہیں وہ قدامت پرستی اور نفرت کو فروغ دے رہی ہیں۔

ایکشن پلان سے بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بلکہ اسلام آباد میں، فیض آباد انٹر چینج پر گزشتہ سال جو دھرنا دیا گیا اس کا پیغام واضح تھا ۔ اس میں کوئی ابہام نہ تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ یہ پیغام ہمیں راتوں کو جگاتا ہے۔ اور ان تمام باتوں کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ ان نتائج سے دل ڈرتا ہے جو موجودہ انتخابی عمل سے ہمارے ذہنوں میں پروان چڑھ رہے ہیں۔

انتخابات جیسے بھی ہوں، 25جولائی کی شام کو ہم اس مرحلے سے گزر جائیں گے۔ لیکن دل کی دھڑکن ، گھڑی کی ٹک ٹک یعنی وقت کا تسلسل قائم رہے گا۔

بشکریہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).