میں آرام دہ حد تک بے حس ہوچکی ہوں!


نطشے نے کہا کہ اگر آرٹ نہ ہوتا تو ہم سچائی کے ہاتھوں‌ مٹ جاتے۔ مصور، مجسمہ نگار، موسیقار، اداکار اور رقاص ہمیں‌ اپنی زندگی کو سمجھنے اور اسے محسوس کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔ ایک لیڈر سے کسی نے سوال کیا کہ آرٹ سے فنڈنگ کاٹ کر جنگ میں‌ پیسہ کیوں‌ نہ لگایا جائے؟ تو انہوں‌ نے جواب دیا کہ اگر ہم ایسا کریں‌ تو پھر ہم کس چیز کے لیے لڑرہے ہیں؟

1950 کی دہائی میں‌ امریکہ سے راک میوزک کا آغاز ہوا جس نے فوراً نہ صرف امریکہ بلکہ تمام دنیا کو یکدم اپنی گرفت میں‌ لے لیا۔ الیکٹرک گٹار، بیس گٹار اور پھر ڈرم! ایسی موسیقی اس سے پہلے سنی نہیں‌ گئی تھی۔ کنٹری، بلوز، جاز اور گاسپل میوزک سے مستعار لی گئی تراکیب سے ایک نئے اسٹائل نے جنم لیا جو لوگوں کی توقعات کے برعکس قائم رہنے کے لیے وجود میں‌ آیا۔

پنک فلائڈ ایک انگلش راک بینڈ تھا جو 1965 میں‌ بنا۔ پنک فلائڈ نے اپنے مختلف انداز کی وجہ سے یک دم بین الاقوامی شہرت حاصل کرلی۔ اپنی فلسفیانہ شاعری، موسیقی کے آلات کے تجربات اور لائیو شوز کی وجہ سے وہ پاپولر میوزک ہسٹری کے کامیاب ترین بینڈز میں‌ شامل ہیں۔

1973 میں‌ پنک فلوئڈ نے راک میوزک کا گانا ”کمفرٹبلی نمب“ یعنی کہ آرام دہ حد تک سن ہونا ریلیز کیا۔ یہ گانا آج بھی راک میوزک کی تاریخ‌ کا اہم حصہ ہے جو اب بھی دنیا کے کے پاپولر ترین گانوں‌ میں شامل ہے۔ دنیا کا حیران کن ترین آرٹ کیسے تخلیق کیا جاتا ہے؟ حیران کن آرٹ وہ ہوتا ہے جو دل کی گہرائی سے، انسانی تجربے کی سچائی سے بنتا ہے اور جس کو دنیا کے ہر کونے میں‌ بستے لوگ سمجھ سکتے ہیں، محسوس کرسکتے ہٰیں۔ اور اس میں‌ اپنی زندگی، اپنے جذبات کی عکاسی دیکھ سکتے ہیں۔

کمفرٹبلی نمب گانے کی چند لائنیں یہ ہیں۔ یہ گانا اصلی زندگی کے واقعات پر مبنی ہے جس کو راجر واٹرز نے لکھا۔ ایک دن شو سے پہلے ان کے پیٹ میں‌ شدید درد تھا جب ڈاکٹر نے درد کی سوئی لگا دی تو ان کا درد تو کم ہوگیا لیکن دماغ ایسے ہوگیا جیسے خواب میں‌ ہو۔ انہوں‌ نے شدید بیماری کی حالت میں‌ بھی اسٹیج پر بہترین پرفارمنس دی۔ اس گانے کے بول اس ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھے گئے تھے جس میں‌ ان کے بچپن کی یادیں جھلکتی صاف دکھائی دیتی ہیں۔

کیا یہاں‌ کوئی ہے؟
بس سر ہلا دیں‌ اگر آپ مجھے سن سکتے ہیں۔
کیا گھر پر کوئی ہے؟
اب آجاؤ

میں‌ نے سنا کہ آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں
میں‌ آپ کا درد کم کرسکتا ہوں
آپ کو اپنے پیروں‌ پر کھڑا کرسکتا ہوں
آرام کریں

پہلے مجھے کچھ کچھ معلومات کی ضرورت ہوگی
بس کچھ بنیادی حقائق
کیا آپ بتا سکتے ہیں‌ کہ کہاں‌ تکلیف ہے
کچھ تکلیف نہیں‌ بس آپ دور جارہے ہیں

جیسے کوئی دور جہاز یا افق پر دھواں
صرف لہروں‌ کی طرح‌ دکھائی دے رہے ہیں
آپ کے ہوںٹ ہل رہے ہیں‌ لیکن میں‌ کچھ سن نہیں‌ پارہا

جب میں‌ ایک بچہ تھا تو مجھے بخار ہوگیا تھا
میرے ہاتھ ایسے محسوس ہوتے تھے جیسے دو غبارے ہوں
میں‌ اب دوبارہ ایسا ہی محسوس کررہا ہوں
میں‌ سمجھا نہیں‌ سکتا، آپ نہیں‌ سمجھیں‌ گے
میں‌ ایسا نہیں‌ ہوں
میں‌ آرام دہ حد تک بے حس ہوچکا ہوں

ٹھیک ہے!
بس ایک سوئی کی چبھن
اس کے بعد کچھ نہیں‌
تم شاید متلی محسوس کرو
کیا تم کھڑے ہوسکتے ہو

میرے خیال میں‌ دوا اچھا کام کررہی ہے
یہ تمہیں‌ شو میں‌ چلتا رکھے گی
کچھ تکلیف نہیں‌ بس تم دور جاتے دکھائی دیتے ہو
جیسے دور کوئی جہاز، یا افق پر دھواں
تم صرف لہروں‌ میں‌ آتے محسوس ہوتے ہو
تہمارے ہونٹ ہل رہے ہیں‌ لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں‌ دے رہا کہ کیا کہہ رہے ہو

جب میں‌ ایک بچہ تھا
تو میں‌ نے اپنی آنکھوں‌ کی جھریوں‌ سے ایک جھلک دیکھی
جب میں‌ مڑا تو وہ جاچکا تھا
میں‌ اب اس پر انگلی نہیں‌ رکھ سکتا
بچہ بڑا ہوگیا
خواب ختم ہوگیا
میں آرام دہ حد تک بے حس ہوچکا ہوں

لوگوں‌ نے اس گانے میں‌ کیا دیکھا؟ سننے والوں‌ کے لیے اس میں‌ بہت سے معنی تھے۔ 1980 کی دہائی میں‌ وہ افراد جن کے مستقبل کے خواب پورے نہیں‌ ہوئے تھے، انہوں‌ نے اس گانے میں اپنی زندگی کی جھلک دیکھی۔ نوجوانی میں‌ انسان کے بہت بڑے ارادے ہوتے ہیں، ہر کوئی دنیا بدل دینا چاہتا ہے لیکن ادھیڑ عمر میں پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کتنی مختصر ہے اور وقت کس طرح‌ تیزی سے گزر گیا۔ ہم اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی بہت کم بدل سکتے ہیں۔ دنیا چلتی رہتی ہے۔ پرانے لوگ جاتے ہیں اور نئے آتے ہیں، ہر آنے والا لمحہ اپنے ساتھ نئے سوال اور نئے مسائل لاتا ہے۔ دنیا ہمارے قابو سے باہر ہے۔ اس پرانکشاف لمحے میں‌ انسان کے سامنے خود کو آرام دہ حد تک بے حس بنالینے سے بہتر راستہ کوئی نہیں‌ ہوتا جس میں وہ دنیا کے بارے میں‌ فکر کرنا چھوڑ دے اور اپنے باغیچے پر دھیان دے۔

میں‌ نے کمفرٹبلی نمب گانا بہت بار سنا ہے۔ میرے لیے اس میں‌ میری اپنی زندگی سے متعلق سبق اور ہمدردی ہے۔ راجر واٹرز کے الفاظ سے متاثر ہوکر میں‌ نے اپنے الفاظ منتخب کیے جو یہ ہیں۔

کیا یہاں‌ کوئی ہے؟
بس سر ہلا دیں‌ اگر آپ مجھے سن سکتے ہیں
کیا گھر پر کوئی ہے؟
جب میں‌ سکھر میں‌ ایک بچی تھی تو مجھے چکن پاکس ہوگئی تھی
میرے امی ابو نے مجھے باقی بہن بھائیوں سے الگ کیا
انہوں‌ نے میرا بستر ڈرائنگ روم میں‌ لگا دیا تھا

میں‌ نقاہت محسوس کررہی تھی
میں‌ اکیلی تھی
میں‌ رو رہی تھی اور میں‌ نے اپنی امی کو آوازیں‌ دیں
وہ دروازہ کھول کر آئیں‌ اور مجھے آدھی روٹی اور تھوڑا سا سالن دیا
یہ کھالو گڑیا! ابو کو مت بتانا
لوگ سمجھتے تھے کہ بیمار کو کھانا نہیں دینا چاہئیے
میں‌ اب دوبارہ ایسا ہی محسوس کررہی تھی

گھنٹی بج چکی تھی
سب میڈیکل اسٹوڈنٹس اپنی سیٹوں‌ پر بیٹھ چکے تھے
لاڑکانہ میں‌ سرجری کا پرچہ تھا
میری کمر میں‌ شدید درد ہوا
گولی نگلی لیکن وہ ایک گھنٹے کے بعد اثر دکھاتی
میرا سر چکرانے لگا

پانچ سوال
تین گھنٹے
جواب سارے مجھے آتے تھے
اتنی تیزی سے ساری زندگی کبھی نہیں‌ لکھا

ایک گھنٹے میں‌ پانچ سوال
میرا پرچہ پورا ہوگیا ہے
میں‌ نے ہاتھ کھڑا کیا
جیسے میں‌ خواب میں‌ چل رہی تھی
واپس آکر بستر میں‌ گر پڑی
آہستہ آہستہ درد کم ہوگیا
میں‌ سمجھا نہیں‌ سکتی، آپ نہیں‌ سمجھیں‌ گے
میں‌ آرام دہ حد تک بے حس ہوچکی ہوچکی تھی!

میں‌ نے روز مریض دیکھے
ہر روز بیماریوں سے لڑائی کی
لیکن بیاریاں‌ نہ کم ہوئیں نہ ختم ہوئیں

جب میں‌ ایک لڑکی تھی
تو میں‌ نے اپنی آنکھوں‌ کی جھریوں‌ سے ایک جھلک دیکھی
جب میں‌ مڑی تو وہ جاچکا تھا
بچے بڑے ہوگئے
خواب ختم ہوگئے
میں آرام دہ حد تک بے حس ہوچکی ہوں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).