پاکستان کا بحران: سات مسائل اور سات حل


پاکستان ایک سنجیدہ سیاسی، نظریاتی، معاشی اور معاشرتی بحران کا شکار ہے اور ہر بحران حالات کو بہتر بھی بنا سکتا ہے اور بدتر بھی۔ بحران کے بعد ملک تنزل کی طرف بھی لڑھک سکتا ہے اور ترقی کی مانزل بھی طے کر سکتا ہے۔ ایک تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور افواج اپنے شہریوں کو تحفظ کی ضمانت فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستانی مذہبی بنیاد پرستی اور مغربی استعماریت کے درمیان ظلم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ پاکستانی، بحیثیت قوم، ستر سال کے بعد بھی اپنے متعدد مسائل کا تسلی بخش حل ڈھونڈنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان کے چند ایک گمبھیر مسائل کو درج ذیل الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

1۔ سماجی اور معاشی مسائل

پاکستان ایک جاگیردارانہ سماج ہے جہاں نوے فی صد دولت پر دس فیصد افراد قابض ہیں۔ کئی دہائیوں پر مشتمل ایک قومی وجود رکھنے کے باوجود پیداواری ذرائع اور دولت کی تقسیم ہنوز غیر متوازن ہے۔ معیشت کی زبوں حالی کی وجہ سے صنعتی ترقی شدید طور پر متاثر ہوئی ہے۔ اس غیر یقینی صورتِ حال کو بدلنے کے لیے فوج یا سول حکومت کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے جس سے امیر اور غریب کے اس بڑھتے ہوئے فرق کو روکا جا سکے۔ بجٹ کا بیشتر حصہ دفاعی اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے جبکہ فوج کئی سول ادارے بھی چلا رہی ہے۔ اس کے علاوہ سن ستر اور اسی کی دہائی میں مشرقِ وسطیٰ روزگار کے لیے گئے ہوئے پاکستانی بھی اپنے لواحقین کو معقول رقم ارسال کرتے رہے ہیں اور مستقل واپس آنے والے بھی اپنے ساتھ خطیر رقم لاتے رہے ہیں لیکن اس دولت کا غیر پیداواری استعمال نہ صرف معاشی عدم استحکام کا باعث بنا ہے بلکہ اس غیر متوقع آمد نے کئی معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔

2۔ تعلیمی پالیسی کے مسائل

پچھلے ستر سالوں میں تعلیمی استعداد بتدریج رو بزوال ہے۔ تعلیمی ادارے بڑھتی ہوئی آبادی کا ساتھ دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دیہاتوں میں اکثریت لکھنے پڑھنے سے نابلد ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ ایسے مجبور اور غریب والدین جو فیملی پلاننگ کی سہولت سے نا آشنا ہیں بچوں کی تعداد میں روز افزوں اضافے کا باعث ہیں۔ ایسے افراد اپنے بچوں کو مذہبی اداروں کے تحت چلنے والے مدرسوں میں داخل کروا دیتے ہیں جہاں انہیں خوراک اور رہائش مفت مل جاتی ہے۔ یہ ایک قابل افسوس امر ہے کہ بہت سے ایسے مدرسے سعودی عرب کی مالی امداد سے چل رہے ہیں۔

میں پاکستان کے علاوہ کسی بھی اور ملک سے واقف نہیں جہاں بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم نہ دی جاتی ہو۔ پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی اور سرائیکی کی بجائے بہت سے بچے اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو کسی طور بھی ان کی مادری زبانیں نہیں ہیں اور یہ بچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

3۔ صحتِ عامہ کے مسائل

بہت سے پاکستانی جسمانی بیماریوں اور ذہنی مسائل کا شکار ہیں لیکن ان کے عوارض کے تدارک کے لیے کوئی مناسب طبی امداد کا انتظام موجود نہیں ہے۔ بہت سی حاملہ عورتیں خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ نوزائدہ بچوں کی اموات کی شرح خاصی بلند ہے۔ مسلسل غربت میں رہنے کی وجہ سے بچے شدید خوراک کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جذباتی مسائل اور ذہنی امراض کے مریض صرف اس وقت ہی ڈاکٹر یا نفسیاتی معالج کے پاس جاتے ہیں جب وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں یا تشدد پر مائل ہو جاتے ہیں۔ ذہنی بیماریاں ابھی تک سماجی توہمات میں گھری ہوئی ہیں۔ صحت عامہ پر جدید معلومات کے فقدان کے باعث احتیاط پر توجہ کم ہے۔ میں جس زمانے میں پشاور کے زنانہ ہسپتال میں کام کیا کرتا تھا تو مجھے کئی ایسے بانجھ جوڑوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جو اولاد کے حصول کی خواہش میں کسی کلینک سے رابطہ کرنے کی بجائے پیروں فقیروں کے مزاروں پو ٹونا ٹوٹکا کرتے پھرتے تھے۔

4۔ مذہبی مسائل

مذہبی خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعلیم بھی مذہبی ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے سائنسی افکار سے نا آشنا رہتے ہیں۔ یہ رجحان اس دور میں زیادہ شدید ہو گیا جب پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان بن گیا۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ ذالفقار علی بھٹو کے کسی حد تک سیکولر عہد میں احمدیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ ضیا الحق کے دور میں اسلام پسندی کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور زندگی کے ہر مکتبہِ فکر کو مشرف بہ اسلام کیا گیا۔ جیسے جیسے مذہب کا عمل دخل سیاست میں بڑھتا گیا ویسے ویسے ریاست اور مسجد کی جداگانہ حیثیت قائم کرنے کے امکانات معدوم ہوتے چلے گئے۔

5۔ شناخت کے مسائل

ایک وقت تھا جب میرے پختون دوست کہا کرتے تھے کہ ہم پانچ ہزار سال سے پٹھان ہیں پندرہ سو سال سے مسلمان ہیں اور پچاس سال سے پاکستانی ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کی شناخت پچھلی کئی دہائیوں سے تبدیل ہو رہی ہے۔ اب ایسے کئی پاکستانی ہیں جو اپنی شناخت کا رشتہ عرب کلچر سے جوڑتے ہیں۔ خدا حافظ آہستہ آہستہ اللہ حافظ بن گیا ہے۔

6۔ سیاسی مسائل

ستر برس گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں جمہوریت کی روایت کی بنیادیں کمزور ہیں۔ نجانے کتنے پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری روایت غیر اسلامی ہے۔ یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ وہاں ذالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیتیں طبعی موت نہیں مریں۔ پچھلے پندرہ سو سالوں میں مسلمان کوئی بھی ایسا نظام وضع نہیں کر سکے جسے جدید یا جمہوری کہا جا سکے۔

7۔ انسانی حقوق کے مسائل

انسانی حقوق کے حوالے سے پاکستان ساری دنیا میں بہت پیچھے ہے۔ چاہے وہ عورتوں کے حقوق ہوں، بچوں کے حقوق ہون یا اقلیتوں کے حقوق پاکستان میں ان سب حقوق کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔

ممکنہ حل

پاکستان کے سات مسائل کے ساتھ ساتھ میں ان کے ممکنہ حل کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں تا کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے اور مہذب قوموں کی فہرست میں شامل ہو سکے۔ اگر ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر، سماجی اور سیاسی طور پر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ترقی پذیر جمہوری ریاست بنے تو

1۔ ہمیں امیر و غریب کے فرق کو توجہ اور تندہی کے ساتھ کم کرنا ہوگا
2۔ ہمیں سکولوں کے نطام کا تنقیدی نگاہ سے جائزہ لینا ہوگا تا کہ بچوں کی مذہبی تعلیم ان کی سائنسی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ ہمیں اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دینی ہوگی۔

3۔ ہمیں طبی دیکھ بھال، تعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں تمام شہریوں تک پہنچانی ہوں گی۔
4۔ ہمیں ایسے قوانین بنانے ہوں گے جن سے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں۔
5۔ ہمیں اپنی شناخت اپنی مقامی روایت سے جوڑنی ہوگی۔

6۔ ہمیں تمام سیاسی پارٹیوں سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ اپنا پانچ سالہ معاشی، مذہبی اور سماجی پروگرام عوام کے سامنے پیش کریں تا کہ شہری آزادانہ طور پر ووٹ دے سکیں۔

7۔ ہمیں اس بات پر اصرار کرنا ہوگا کہ آئین اور پارلیمان کو اولیت حاصل ہے اور فوج اور عدالتیں سیاسی لیڈروں کی قیادت تسلیم کریں تا کہ ملک میں ایک جمہوری فضا اور منصفانہ اور عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔

مجھے اندازہ ہے کہ ان سات مسائل اور حلوں میں سے ہر ایک پر ایک تفصیلی مقالہ لکھا جا سکتا ہے۔ میں نے وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے ان کا اختصار سے ذکر کیا ہے۔ کسی دانا شخص نے کہا ہے۔ عاقل را اشارہ کافی ہست۔
ترجمہ: رفیق سلطان

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail