کیونکہ میں درویش ہوں۔۔۔


آج اس دور میں جب ہر کوئی مشہور ہونا چاہتا ہے، نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ راتوں رات سپر سٹار بن جائیں ایسے میں کچھ لوگ ابھی بھی باقی ہیں جو ان سب چیزوں کو پسند نہیں کرتے۔ اس ضمن میں چند مثالیں پیش کیے دیتا ہوں۔ میرے پہلے دوست جو یہ بات پسند کرتے ہیں ان کوآسٹرولجسٹ کہا جائے۔ بہت سادہ قسم کے انسان ہیں۔ جتنا کوئی عام آدمی دولت، شہرت اور عزت کو پسند کرتا ہے یہ اتنا ہی ان سب سے دور بھاگتے ہیں۔

مثال کے طور پر ایک دن ہم بیٹھے ہوئے تھے تو وہ بتانے لگے کہ پاکستان کا ایک بڑا چینل انہیں تاریخ پر مبنی پروگرام کرنے کی آفر کر رہا ہے جسے وہ درجنوں مرتبہ ٹھکرا چکے ہیں مگر چینل والے مختلف لوگوں کے ذریعے سفارشیں ڈالتے پھر رہے ہیں اب تم ہی بتاؤمیں کیا کروں؟ میں نے ان کی بات سن کر جھٹ سے جواب دیا‘تو آپ آفر قبول کرلیں‘ میری بات سنتے ہی وہ غصے میں آگئے کہنے لگے اگر میں نے دنیا کی چکا چوند سے متاثر ہونا ہوتا تو میں تب ٹی وی پر نہ آجاتا جب حامد میر، کامران خان جیسے صحافی میری منت سماجت کر رہے تھے۔ او بھائی مجھے ان دنیاوی چیزوں کا کوئی لالچ نہیں، میرا میدان علم ہے۔ مجھے ابھی اس دنیا میں بہت سے کام کرنے ہیں۔ اگر میں اس ’آرٹیفشل‘دنیا کی چیزوں میں الجھ گیا تو میں اپنا کام کیسے کروں گا۔

میری نظر میں آج اپنے دوست کی قدر مزید بڑھ چکی تھی، میں نے اپنے بیٹھنے کا انداز مودبانہ کرلیا۔ اچھا وہ مجھے پتا چلا ہے‘ تم نے چینل جوائن کرلیاہے ’ جی میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ اچھا میرے پاس وقت تو نہیں مگر صرف تمہارے تعلق کی وجہ سے میں ایک فیور دے سکتا ہوں۔ جی وہ کیا؟ یار تم اپنے چینل والوں کو میرا بتاؤ میں آسٹرولجی، ادب، تاریخ، سیاست، معیشت، زراعت، آئی ٹی، قانون کے موضوعات پر بہترین پروگرام کرسکتا ہوں !

ہمارے دوسرے جاننے والے ایک نجی کمپنی کے درمیانے درجے کے آفیسر ہیں۔ ان کو اس دفتر میں کام کرتے ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں۔ ان سے بعد آنے والوں کی تنخواہیں ان سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ موصوف کے ماتحت کام کرنے والوں کی تنخواہ بھی ان سے زیادہ ہے۔ کہنے کو وہ آفیسر ہیں مگر چونکہ سادہ مزاج انسان ہیں اس لیے دفتر کے ایگزیگٹو افسران سمیت ان کے ماتحت بھی انہیں افسر نہیں سمجھتے۔ کیونکہ وہ نرم طبیعت کے آدمی ہیں اس لیے آئے روز کمپنی کے مالک ان کی کلاس لیتے رہتے ہیں۔ کچھ دن پہلے چائے پر ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا کام کیسا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ ساری باتیں جو میں اوپر لکھ چکا ہوں، بتادیں۔ سب بتانے کے بعد کہنے لگے مجھے ڈبل تنخواہ، گاڑی اور ہاؤس رینٹ کے ساتھ دوسری کمپنی سے آفر آئی تھی۔ کمپنی نے گاڑی کی چابی بھی بھجوا دی تھی، بلینک چیک بھی بھجوایا تھا۔ مگر میں نے سب کچھ واپس بھجوا دیا۔ مجھے نہیں ان بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنا۔ میں جہاں ہوں وہیں بہت خوش ہوں۔ مجھے بڑی گاڑیاں، بڑے گھر اور یہ آسائشیں نہیں چاہیے۔ یہ آسانیاں میری ترجیحات کبھی نہیں رہیں۔ اب تم ہی بتاؤ جو عزت مجھے یہاں مل رہی کیاوہ کیا کم ہے؟

تیسرے باصلاحیت انسان دراصل میرے دوست کے دوست ہیں۔ یہ ذہین بھی ہیں فطین بھی۔ یہ سادگی پسند ہیں۔ آپ کی ان کی سادگی کا اندازہ یہاں سے لگائیں(ان کے بقول) انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان دیا جس پر انہوں نے پہلی چند پوزیشنز میں جگہ پائی۔ یہ چونکہ سوفٹ وئیر انجینئر ہیں تو چند دن پہلے مائیکروسوفٹ کمپنی کی طرف سے انہیں بہترین جاب کی آفر آئی، اس آفر میں وہ تمام سہولتیں بھی شامل تھیں جن کی کوئی خواہش کرسکتا ہے۔ اس دوران امریکہ کی یونیورسٹی نے انہیں سکالرشپ اور معقول رقم کے ساتھ اعلی تعلیم ان کے ہاں حاصل کرنے کا خط بھیجا۔ یوں سمجھیے قدرت ان کی قسمت پر مہربان ہے۔ مگر وہ خوش نصیب کہتے ہیں انہوں نے یہ باتیں کسی کو آج تک کسی کو نہیں بتائیں یہاں تک کے ان کے گھر والوں کو بھی ان سب معاملات کا علم نہیں۔ میں نے پچھلے آدھے گھنٹے سے ضبط کی ہوئی حیرانی کے ساتھ پوچھا تو وہ صاحب پھر آج کل کیا کر رہے ہیں؟ ‘ وہ اپنے محلے کی اکیڈمی میں بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے ہیں‘ میرے دوست نے جواب دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).