تاریخ دھرائی جاتی


تاریخ دہرائی جاتی ہے خصوصاً ان اقوام میں جہاں تاریخ سے سبق نہیں سیکھا جاتا۔ فاطمہ جناح جب ایوب کے مقابلہ میں کھڑی تھیں تو کراچی اور بنگال ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ مجیب جناح کی بہن کے پہلو میں کھڑا ہوتا تھا۔ پھر جو ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب تھا کس طرح فاطمہ جناح اس دنیا سے رخصت ہوئی یہ آج بھی معمہ ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ایوب کے ایماء پر پہلی بار تاریخ میں مہاجر کش فساد ہوا جس کی راکھ سے آگے چل کر مہاجر قوم پرستی کی داغ بیل پڑی۔ اور بنگال کے ساتھ وہ سلوگ ہوا کہ چند سال بعد مجیب پاکستان میں بنگلا دیش کا سربراہ بن کر آرہا تھا۔

اس دوران اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے ایک شخص لیڈر بنا جس کو بھٹو کہتے تھے یہ ان کے لاکھوں فوجی جو دشمن کے چنگل میں تھے ان کو چھڑا کر آیا اور جس نے ایٹمی پروگرام کی داغ بیل رکھی مگر جب وہ ان کی آنکھوں میں کھٹکا تو اس کو پھانسی پر چھڑا دیا گیا اور پاکستان کی تاریخ کے وہ سال شروع ہوئے جس میں پی پی نہیں تھی، ضیاء کا طوطی بولتا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی کو مردہ سمجھا جاتا تھا مگرجس دن ضیاء کا باب ختم ہواتو جو پہلی پرائم منسٹر تھی وہ بھٹو کی بیٹی تھی۔ بھٹو ایسا زندہ ہے کہ آج تک مرنے کا نام نہیں لے رہا۔ اور آج تک سندھ جب ووٹ دیتا ہے تو بھٹو کو دیتا ہے۔

اسی ضیائی دور میں آپ نے کراچی کو ایک پارٹی دی جس کی سربراہی الطاف حسین کر رہا تھا مگر جب وہ پارٹی آپ کے ہاتھ سے نکلی تو اس کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا۔ مگر اس طویل آپریشن میں جب جب الیکشن ہوا سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم جیتی۔ 2002 سے 2008 تک ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی دست راس تھی، کراچی میں اپنے مخالفین اور ان تمام افسران جو کراچی آپریشن میں شریک تھے، ان کو چن چن کر مارا۔ یہ وہی پولیس افسران تھے جن کو اسٹبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کے خلاف استمعال کیا تھا۔ مگر اسٹبلشمنٹ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اور ایم کیو ایم سے وہ کام لئے گئے جو وہ خود نہیں کر سکتی تھی۔

جب 12 مئی کو کراچی میں ایم کیو ایم نے خون کی ہولی کی ہولی تو اسلام آباد میں گھوڑوں کی تھاپ پر کرتے ہوئے مشرّف مکا لہرا لہرا کر کہہ رہا تھا کہ دیکھو عوام نے کراچی میں اپنی طاقت دکھا دی۔ پھر وہی ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کے نرغے میں آئی تو ان کو الطاف سے لا تعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ آج ایم کیو ایم کے کتنے دھڑے ہیں گنتی مشکل ہے۔ افسوس یہ وہی الطاف حسین تھا جو ”محب وطن جنرلز“ کو سویلین گورنمنٹ کا تختہ الٹنے کا کہتا تھا۔ مگر آج بھی الیکشن سےپہلے الطاف حسین کو کھلی آزادی مل جائے تو کراچی سے متحدہ کو پرانا مینڈیت مل جائے گا۔

اسی اسٹیبلشمٹ نے نواز شریف کو بنایا اور جس طرح بی بی کے خلاف استعمال کیا گیا اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں مگر جس وقت اس نے اختیارات اپنے ہاتھ لینے شرعع کیے تو جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا وہ تاریخ کا حصہ ہے، ایک وقت تھا کہ لگتا تھا کہ نواز شریف اور اس کا ووٹ بینک ختم ہو گیا مگر جب مشرف کمزور ہوا تو اس وقت پنجاب میں پی ایل ایم این کی حکومت تھی۔

کل ان کو جس طرح سزا سنائی گئی، جس طرح بیٹی، داماد سمیت جیل کی سزا سنائی گئی اس سے بہت کہہ رہے کہ نواز شریف کی سیاست اختتام پذیر ہوئی تو شاید تاریخ پر نگاہ پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو نہ ہی سیاسی لیڈر ایسے ختم ہوتے ہیں نہ ان کا بیانیہ۔ ہم تاریخ میں یہی غلطیاں دہراتے چلے آئے ہیں کہ سیاسی لیڈرز کو مصنوعی طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی اور تاریخ بتاتی کہ ہمیشہ نتیجہ الٹا نکلتا ہے۔ جس طرح اس ملک کے چلانے والے ایک ہی غلطی بار بار کرتے ہیں، تاریخ بھی اپنے آپ کو بنا ترمیم کیے دہرا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).