فیصلے کے بعد نواز شریف کے لئے کرنے والے فیصلے


میاں محمد نوازشریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز آمریت کے سائے میں کیا۔ ان کے متعلق ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ نازونعم میں پلے پنجاب کے لاڈلے بچے ہیں جو قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرسکتا اوراسی لیے وہ مشرف کے ٹیک اوور کے بعد ایک ڈیل کے تحت ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ مزاحمت کی سیاست کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ یوں بھی ان کا خاندانی پسِ منظر کاروباری ہے اور کاروباری لوگ نقصان اٹھانے کی بجائے سمجھوتہ کرلینے کو ترجیح دیا کرتے ہیں۔ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کیس میں فیصلہ اپنے خلاف آ جانے کے بعد وہ پھر سے تاریخ کے ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ایک جانب تو پاکستان واپسی مؤخر کر کے حالات بہتر ہونے کا انتظار کرنے کا آپشن ہے۔ دوسری جانب فوری طور پر پاکستان واپس آ کر گرفتاری پیش کرنے کا راستہ ہے۔ فی الحال تو انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں وطن واپسی کا عندیہ دیا ہے مگر ساتھ ہی اپنی واپسی کو کلثوم نواز صاحبہ کے ہوش میں آنے سے بھی مشروط کردیا ہے۔

اب یہ انتخاب نوازشریف صاحب کے ہاتھ میں ہے کہ وہ تاریخ کے دھارے میں خود کو کس جانب رکھتے ہیں۔ الیکشن سر پر ہے اور مسلم لیگ نون کے امیدوار خود بھی گومگو کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ نوازشریف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ملک بھر میں کوئی قابلِ ذکر احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی نون لیگ کے ورکرز سڑکوں پر نکلے ہیں۔ ایسے میں اگر نواز شریف پاکستان واپسی کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنے مزاحمتی بیانیے پر ڈٹ جاتے ہیں تو ان کا یہ قدم مسلم لیگ نون کے ورکرز اور حامیوں میں ایک نئی روح پھونکنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ مسلم لیگ نون کا ووٹر الیکشن کے روز گھر سے نقل کر ووٹ کی پرچی کے ذریعے نوا زشریف کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی توثیق کر گا۔

دوسری جانب اگر میاں صاحب پاکستان لوٹ کر حالات کی سنگینی کا مقابلہ کرنے سے کنی کتراتے ہیں تو ان کے حامیوں میں بے دلی پھیل جائے گی اور اس کے مسلم لیگ نون کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سوال تو یہی ہے کہ کیا نوازشریف میں اتنی جرات ہے کہ وہ بغاوت کا علم تھام سکیں اور صوبتوں بھرے راستے کا انتخاب کر سکیں؟ ان کا یہ فیصلہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ان کے مقام کا تعیّن کرے گا۔ انقلابی بن جانے کا دعویٰ کرنا بہت آسان ہے مگر انقلابی لیڈر جیسا طرزِعمل اپنانا نہایت مشکل ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جہاں آپ ان قوتوں کے ہاتھ کے لگائے گئے پودے ہوں جن کے مقابلے میں آپ کھڑے ہونے جا رہے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے کاروباری اور مالی معاملات بھی اتنے شفاف نہ ہوں۔

جہاں تک عدالتی فیصلے کے میرٹ کا تعلق ہے تو ایسے فیصلے وقتی طور پر مخالفین کی خوشی کا سامان تو مہیّا کرتے ہیں مگر اس کی شفافیت کا تعیّن آنے والے وقت اور مؤرخ کا قلم ہی کیا کرتا ہے۔ فلم کے ہدایتکار، سکرپٹ رائٹر اور پسِ پردہ کرداروں کے نام چند دہائیوں بعد ہی افشاء ہوا کرتے ہیں۔ نوازشریف صاحب اپنے کئی بیانات اور تقاریر کے دوران وقت آنے پر کئی رازوں سے پردہ اٹھانے کا دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں۔ اگر وہ واقعی اس معاملے میں سنجیدہ تھے تو بھلا اس کارِخیر کے لیے اس سے زیادہ مناسب وقت اور کون سا ہو گا؟

میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز انتخابی حلقوں کی سیاست کے ماہر چاہے رہے ہوں مگر قومی سطح پرمقبول سیاسی قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ اگر میاں نوازشریف پاکستان نہ آنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پاکستان کی سیاست میں ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہو گا۔ اورشاید یہ سب کرنے والوں کا منشاء بھی یہی تھا۔ ایسی صورت میں ہمیں یقیناً پچیس جولائی کے بعد ایک کمزور حکومت کی شکل ایک کنٹرولڈ جمہوریت کے استقبال کے لیے تیار رہنا چاہیے جہاں میڈیا بھی سخت سنسرشپ کا شکار ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).