نواز شریف اور نواز لیگ سیاسی بساط سے باہر نہیں ہوئے


بالآخر” باغی ” نواز شریف اور سرکش “مریم نواز” کو ایون فیلڈ پراپرٹی کیس میں بالترتیب دس اور سات سال قید کی سزائیں سنا کر  دونوں کو سبق سکھا دیا گیا۔ ان سزاوں کو  ایک طرح سے ایسٙٹیبلیشمنٹ کے  دل کے بہلانے کا ساماں بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ایون فیلڈ پراپرٹی کیس میں فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف ہی آنا تھا اور اس حقیقت سے وطن عزیز کا ہر باخبر شخص واقف تھا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اپنے فیصلےسے وطن عزیز میں ایک نئ عدالتی نظیر بھی قائم کی ہے۔ چونکہ بار ثبوت استغاثہ ( پراسیکیویشن ) کے بجائے  نواز شریف اور مریم نواز پر ڈالا گیا تھا اس لئیے آئندہ سے شاید عدالتوں میں پیش ہونے والے ہر ملزم کو اپنی بے گناہی خود ثابت کرنا پڑے گی اور استغاثہ کا  کام محض عدالت میں بیٹھ کر وقت گزاری کرنا ہو گا۔  خیر یہ فیصلہ بذات خود نہ صرف مضحکہ خیز ہے بلکہ اس فیصلے نے ریاست میں “ڈیپ سٹیٹ” کی اجارہ داری اور اس کے تمام اداروں پر تسلط کو بھی عیاں کر دیا ہے۔
شاید پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کی سزا نواز شریف کو آج سنا دی گئ ہے ۔ ہاوسنگ سوسائٹیاں سیمنٹ اور دلیہ بیچنے والا گروہ ایک بار پھر جمہوریت کی ناتواں عمارت میں شگاف ڈالنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ اب محض رسما الیکشن کے نام پر سیلیکشن کر کے ایک لنگڑے گھوڑے کو “جیپ” کی مدد سے وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچانے کا کام باقی ہے۔ جو آئندہ چند دنوں میں بخوبی پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ یوں ایک بار پھر فتح کے شادیانے بجائے جائیں گے عوام کو عمران خان جیسے مہرے کی مدد سے ہالوسینیشن کی کیفیت میں مبتلا کر کے یہ بتایا جائے گا کہ وسیع ترین ملکی مفاد کی خاطر ایسے تمام عناصر کی سرکوبی ضروری ہے جو عوام کے اجتماعی شعور کو کسی گروہ یا ادارے کے شعور پر ترجیح دیتے ہیں۔ یوں نہ صرف عوام کی توجہ بھی بٹ جائے گی بلکہ  ملکی و  ریاستی امور کو پس پشت رہ کر چلاتے ہوئے مالیاتی اداروں، ایف ایم ریڈیوز کے نیٹ ورک، ہاوسنگ سوسائٹیوں، سیمنٙٹ،گوشت، دالوں اور دلیہ بیچنے کے کاروبار کو بھی مزید وسعت دینے کی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔  یہاں تک تو کہانی ٹھیک ہے اور فلموں کی مانند ایک خوشگوار انجام کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی دکھائ دیتی ہے۔ لیکن درحقیقت اس کہانی کا انجام اب سکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر کے ہاتھوں سے بھی نکل چکا ہے۔
 نہ تو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنانے سے مسلم لیگ نواز کے ووٹ بنک پر کچھ خاص اثر پڑتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی مسلم لیگ نواز کواب تک  سیاسی میدان سے ناک آوٹ کیا جا سکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب کی بار “محکمہ زراعت” والے رات دن ایک کر کے نواز شریف کی جماعت کے امیدواروں کو وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ اگر پس پشت طاقتوں کی کٹھ پتلی عمران خان کی پوزیشن انتخابات میں مضبوط ہوتی تو محکمہ زراعت والے ہرگز بھی مسلم لیگ نواز کے انتخابی نشان پر لڑنے والے امیدواروں کو ہراساں نہ کرتے اور نہ ہی جیپ کے نشان پر 100 سے زاِئد امیدواروں کو انتخابات لڑوانے کیلئے میدان میں اتارا جاتا۔ اس وقت جو صورتحال ہے اس کے مطابق اب لڑائی اسٹیبلیشمنٹ کے حمایت یافتہ بیانئیے اور نواز شریف کے بیانئیے کی ہے۔ محترم عمران خان اور آصف زرداری کا نہ تو کوئ اپنا بیانیہ ہے اور نہ ہی ان دونوں شخصیات میں اتنا دم ہے کہ یہ اسٹیبلیشمنٹ مخالف بیانیے کو تشکیل دینے کا تصور بھی کرنے پائیں۔ اب فیصلہ نواز شریف اور مریم نواز کو کرنا ہے کہ کیا وہ وطن واپس آ کر ہمت دکھاتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کیلئے تیار ہیں یا نہیں؟ اگر نواز شریف اور مریم نواز واپس لوٹے تو پس پشت قوتوں کیلئے ان کو جیل میں ڈالنا ہرگز بھی آسان کام نہیں ہو گا۔ ایک سیاستدان کے سیاسی کیرئیر کو جیل کی سلاخیں دوام بخشنے کا کام انجام دیا کرتی ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی  واپسی نہ صرف ان دونوں کے سیاسی دوام کا باعث بن سکتی ہے بلکہ مسلم لیگ نواز کے ہمدردی کے ووٹ بنک میں اضافے کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یک طرفہ احتساب اور پس پشت قوتوں کی ایما پر عدالت سے سنائی گئی سزاوں نے نواز شریف اور مریم نواز کو بھٹو خاندان کی مانند ملکی سیاست میں اینٹی ایسٹیبلیشمنٹ اور مزاحمتی سیاست کا استعارہ بننے کا سنہرا موقع فراہم کر دیا ہے اور شاید قید و بند کاٹنے کے کے بعد نواز شریف کے ماضی پر اٹھتے سوالات اور الزامات بھی اپنی موت آپ مر جائیں گے۔
دوسری جانب اگر نواز شریف اور مریم نواز وطن واپسی کا فیصلہ موخر کر دیتے ہیں تو شہباز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ نواز نہ تو انتخابی مہم میں جان ڈال پائے گی اور نہ ہی ایسٹیبلیشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے پائے گی۔ عام انتخابات میں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے بغیر مسلم لیگ نواز کیلئے تیس سے چالیس قومی اسمبلی کی نشستیں جیتنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ خیر بات اب عام انتخابات کے معرکے سے کہیں بڑھ کر ہے اور اب نوبت  بقول فیض” گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا۔۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں ”  تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ ستر برسوں سے ملک میں  حب الوطنی اور مذہب کے نام کو استعمال کرنے والی قوتوں کی اجارہ داری ختم کرنے کیلئے قربانیاں تو دینی پڑیں گی اور اگر نواز شریف اور مریم نواز یہ قربانیاں دینے کو تیار ہیں تو پنجاب سے انہیں عوام کی اکثریت کی حمایت اور تائید بھی مل جائے گی۔
رہی بات ان تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کی جو ایون فیلڈ پراپرٹی کیس میں نواز شریف اور مریم نواز کو سزائیں ملنے کے بعد  مسلم لیگ نواز کے سیاسی خاتمے کے دعوے کرتے عمران خان کو پنجاب سے انتخابات میں کلین سویپ کرتا دیکھ رہے ہیں تو شاید وہ پنجاب کے ووٹر کے مزاج اور زمینی حقائق کو سمجھنے سے نابلد ہیں۔ اسی نواز شریف کو جب 1999 میں ہائی جیکر قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائ گئ تھی اور 2002 کے انتخابات میں بدترین دھاندلی کرتے ہوئے اس کی جماعت کو قومی اسمبلی کی محض دو درجن کے لگ بھگ نشستوں تک محدود کر دیا گیا تھا تو پنجاب کے ووٹر نے اپنا غصہ سنبھال کر رکھا تھا۔ سن دو ہزار سات میں پنجاب کے ووٹر نے مسلم لیگ نواز کو صوبے میں حکومت دی اور دو ہزار تیرہ میں وفاق اور پنجاب سمیت نواز شریف کو دو تہائی مینڈیٹ دیا۔ یہ  الگ بات ہے  کہ ہمیشہ کی مانند عوامی مینڈیٹ کو جوتوں تلے روندتے ہوئے ملک کو ایک بار پھر سن نوے کی دہائی میں دھکیل دیا گیا۔ دائروں میں بار بار سفر کر کے ایک ہی جگہ عوام کے ایک حصے کے شعور کو مقید کر کے خود فریبی میں تو جیا جا سکتا ہے لیکن اس خود فریبی سے نہ تو سفر کی طوالت کم ہونے پاتی ہے اور نہ ہی بے رنگ سویروں کو پرنور بنایا جا سکتا ہے۔
 کمال حسن اتفاق ہے کہ ستر برسوں  میں جیلیں صرف سیاستدانوں کے حصے میں آئیں اور سولی بھی سیاستدان ہی چڑھے جبکہ فوجی  آمر اور دفاع کی غلط پالیسیاں بنا کر ملک دو لخت کروانے والے طالبان پیدا کرنے والے اور اپنے حلف سے منحرف ہو کر سیاست پر اثر انداز ہونے والے  تمام افراد فرشتہ صفت اور صادق و امین ٹھہرائے گئے۔ کہتے ہیں جہاں خطرہ زیادہ ہوتا ہے وہیں کچھ پانے کا موقع بھی موجود ہوتا ہے۔ نواز شریف اور مریم کی وطن واپسی ابھی بھی بساط پر نادیدہ قوتوں کی شہ مات کا باعث بن سکتی ہے کہ سلاخوں کے پیچھے  بیٹھے نواز شریف اور مریم نواز مزاحمتی سیاست کے استعارے کے طور پر ابھرنے کے ساتھ ساتھ ہر گزرتے دن پس پشت قوتوں کے بیانئیے کے کمزور ہونے کا باعث بنیں گے۔ ان سزاوں کے بعد نواز شریف مریم نواز اور مسلم لیگ نواز گیم سے باہر نہیں ہوئے بلکہ اصل گیم اب شروع ہوئی ہے۔ نواز شریف اور مریم کی گرفتاری مسلم لیگ نواز کے ماضی کے  طرز سیاست کے گناہوں کو دھونے کے ساتھ ساتھ اس جماعت کے مستقبل کو محفوظ بناتے ہوئے عوامی طاقت کے بل بوتے پر اسے دوبارہ اقتدار میں لانے کا باعث بن سکتی ہے۔ جب تک نواز شریف اور مریم ڈر کر لندن میں ہی بیٹھ کر خود ساختہ جلاوطنی کا فیصلہ نہیں کر لیتے اس وقت تک مسلم لیگ نواز سیاسی بساط سے باہر نہیں ہو سکتی اور نہ ہی نواز شریف اور مریم نواز کی سیاست اس سے پہلے دم توڑ سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).