الیکشن والے چونچلے


الیکشن قریب تھا محلے کا ایک رئیس کاروباری شخص چیئرمین کی سیٹ کے لیے اپنے گھر سے نکل کر ووٹ کی طلب میں سڑکوں پر پھرنے لگا اور اس پیاس میں لوگوں سے معلوم نہیں کیا کیا وعدے کر بیٹھا۔ میں اور ایک دوست بھی سڑک پر موجود تھے کہ میرا دوست کہنا لگا کہ میں ووٹ اسی کو دون گا کیونکہ میرے ہمسائے نے کہا ہے۔ اب الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی ہر طرف اسی کے نعروں کی آوازیں گونجنے لگ گئیں کیونکہ لوگوں نے اپنا بادشاہ چن لیا تھا اور خود کے لیے غلامی اور اس بادشاہ کو کندھے پر اٹھائے ڈھولوں کی تھاپ کے ساتھ علاقے میں منہ دکھائی کے لیے چکر لگنا شروع ہو گئے تھے پھر صاحب نے گدی سنبھالی اور سینہ چوڑا کر کے علاقے میں من مانیاں کرنا شروع کر دیں تھی۔

ایک روز رات کے وقت میں گھر کو واپس جا رہا تھا کہ ایک ہجوم نظر آیا اور ہر کوئی غصے میں اونچی آواز میں بول رہا تھا۔ قریب پہنچا اور صورتحال کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ چیئرمین صاحب ایک نوجوان پر اپنا غصہ جھاڑ رہے تھے اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھتے ہوئے کہ رہے تھے ”کہ جس میڈیا کو بلانا ہے بلاؤ گٹر کے پائپ کا رخ تو تمہارے گھر کی جانب ہی رہے گا“۔ نوجوان تھا خون میں بہت گرمی تھی مگر کچھ بھی نہ کر پایا کیونکہ یہ نوجوان میرا وہی دوست تھا جس نے ہمسائے کے کہنے پر اس آدمی کو ووٹ بھی دیا تھا اور کندھوں پر بھی اٹھایا تھا۔

اب ایک بار پھر سے الیکشن کی وجہ سے ہمارے علاقوں کی رونق واپس آ گئی ہے۔ علاقے کے مالکان حضرات عوامی خادم کی شکل میں ظاہر ہونے لگ گئے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کی کمپین بھرپور طریقے سے جاری دیکھائی دے رہی ہے۔ الیکشن کے سیزن میں کیٹررز حضرات کی خوشی بےقابو ہو جاتی ہے کیونکہ الیکشن سے پہلے امیدوار لوگوں کو ان کی خواہش کے مطابق رنگ برنگے پکوان کھلاتے ہیں۔ اس کمپین میں مختلف قسم کے امیدوار علیحدہ علیحدہ ترکیبیں استعمال کرتے ہیں۔ جن میں ایک تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حکومت پوری ہونے کے بعد ہر چیز پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا اور لوگوں سے فاصلے اختیار کر لیے ہیں تاکہ لوگوں کو احساس ہو سکے کہ ان لوگوں کے بغیر علاقائی اور معاشی ترقی بلکل بھی ممکن نہیں اور یہی لوگ صرف ان کے ووٹوں کے حقدار ہیں۔

دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو نرم اور گرم بستر چھوڑ کر سڑکوں پر آن پہنچے ہیں اور بھرپور طریقے سے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں تا کہ لوگوں کو عوامی خادم ہونے کا یقین دلا سکیں اور اس کمپین کے لئے تیاریاں کچھ ہٹ کر کی جاتیں ہیں جن میں سے پہلا مرحلہ نقاب پوشی ہے اس مرحلے میں چہرے پر ایک خوبصورت سا نقاب چڑھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے کچھ روز کے لئے ایک مستقل مسکراہٹ چہرے پر آ جاتی جو کہ عاجزی کا عنصر ظاہر کرنے میں مدد دیتی ہے اور دوسرے مرحلے میں اپنا محل چھوڑنے سے پہلے امیدوار زبان پر شہد لگاتے ہیں تاکہ ان کی باتیں لوگوں کے دلوں میں تیر کی مانند لگیں۔ تیسرے مرحلے میں علاقے کے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گاڑی میں کچھ تحائف رکھے جاتے ہیں تاکہ بدلے میں اپنی مطلب کی چیز حاصل کر سکیں۔

اگر بات کریں ہماری عوام کی تو ایسا لگتا ہے کہ ساری اخلاقیات کی مالک یہی ایک قوم ہے کیونکہ اگر ان کے در پر کوئی ایسا امیدوار آ جائے جس کے بارے میں یہ لوگ جانتے ہوں کے یہ شخص انتہائی کرپٹ اور نا اہل ہیں مگر در سے کسی کو خالی ہاتھ بھیجنے میں ان کو دلی تکلیف محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ ووٹ دینے کے وعدہ کر لیتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ووٹرز کی بہت سی اقسام پائی جاتیں ہیں۔ ایک انتہائی پڑھا لکھا طبقہ جو کہ تعداد میں کم ہے سارا سال اس نمائندہ کی جس کو ووٹ دیا ہوتا تصدیق میں لگے رہتے ہیں نمائندے کی کارکردگی دیکھتے ہیں اور اگلی بار کے لئے اہل یا نا اہل قرار دیتے ہیں یہ اپنے حق کے لئے لڑنا جانتے ہیں لہزا پانچ سال بعد ان کو نقاب پوشوں اور میٹھی زبان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسرا وہ لوگ جن کو اس آزاد ملک میں خود کو غلام بنانے کی عادت سی پڑ گئی ہے جو لوگ صرف اور صرف ذاتی مفاد دیکھتے ہوئے پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگا دیتے ہیں جو کہ کبھی پورا ہو یا نہ ہو ووٹ صرف مالکوں کو دیتے ہیں۔

تیسری قسم میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو سیاسی نمائندوں سے دو بوٹیوں والی بریانی اور ساتھ ایک ٹھنڈی بوتل کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے ہوتا مگر ووٹ دینے میں سختی اس قدر ہے کہ جس کی بریانی ٹھنڈی ہو اسے ووٹ نہیں دیتے۔

ایک قسم ان ووٹرز کی ہے جو سارا سال دیکھتے ہیں کہ حکومت نے چند ایک چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں کیا اور نہ کریں گے اور اگر کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے تو وہ اس شخص سے بری طرح لڑنے کے بعد قطع تعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ بیشک وہ قریبی رشتےدار ہی کیوں نہ ہوں۔

محسن ساجد
Latest posts by محسن ساجد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).