قیامت کی چالیں چلنے کا وقت آ گیا


\"ejaz

بڑے پہلوانوں میں کشتی کا مقابلہ ہو یا دو بڑے باکسرز کے درمیان باکسنگ کا مقابلہ ہو۔تو تماشائیوں کا موڈ بنانے کے لئے پہلے چھوٹے موٹے کھلاڑیوں کو میدان میں اتارا جاتا ہے۔ پچھلے تین سال میں ہم نے ایسے کئی تماشے دیکھے لیکن اصل کھیل اب شروع ھو رھا ھے۔ جس کو سانڈوں کی لڑائی بھی کہا جا سکتا ہے۔ خبر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر مین خواب غفلت سے اٹھ بیٹھے ہیں اور اگلے انتخابات کے لئے تیاریاں شروع کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزرا سے ملاقات کی۔

پنجاب میں تنظیم نو اور پیپلز پارٹی کو مستحکم کرنے کے لیے بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے لئے اپنی کمر کس رہی ہے۔ 2013 کے بعد سے پیپلز پارٹی کی قیادت اور پارٹی رہنما لو پروفائل میں رہے۔ اپنے دور اقتدار میں روزانہ نجی چینلز پر بلند بانگ دعوے کرنے کے شوقین وفاقی وزراء اقتدار چھوڑنے کے بعد غائب ہی ہو گئے تھے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے کئی اہم لوگوں پر کرپشن کے کیسز بھی بنے لیکن پنجاب میں اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت دیکھنے کو نہیں ملی۔

پیپلز پارٹی کے رہنما بہت سیانے ہیں قبل از وقت انتخابی مہم چلا کر خود کو تھکانا نہیں چاہتے۔ ان کی انتخابی مہم اب شروع ھونے والی ہے۔ پنجاب میں پی پی پی نئی قیادت لا رہی ہے۔ اعتزاز احسن، جو جوڑ توڑ کے ماہر ہیں، کے ذمے پنجاب لگایا جا سکتا ہے۔ وہ کئی بڑے سیاستدانوں کو پی پی میں شامل کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ قمرزمان کائرہ اور ندیم افضل چن بھی ایک پی پی کا معتدل چہرہ ہیں۔ موجودہ صورت حال میں کئی اہم سیاسی گروپ تحریک انصاف سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کئی ن لیگی سیاست دان جن میں کئی ممبران اسمبلی بھی شامل ہیں ن لیگ کی قیادت سے مایوس ہیں۔ بر سر اقتدار حکومتی خاندان اپنے ممبران اسمبلی کو کسی بھی طرح سے اہمیت نہیں دیتے۔ اگر کوئی اچھا سیاستدان سنجیدگی سے ان لوگوں سے رابطہ کرتے تو اس کو کامیابی مل سکتی ہے۔

ویسے بھی پاکستان کے وڈیروں ، مخدوموں، سیاستدانوں کا مائنڈ سیٹ آج بھی ویسا ھی ھے جیسا کہ آج سے ستر سال قبل تھا۔ امیر محمد خان بتاتے ہیں کہ ان کو میانوالی کے انگریز ڈی سی نے بتایا کہ انگریز ہندوستان کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور پاکستان بنا کر یہ ملک مسلم لیگ کے حوالے کر جائیں گے تو پاکستان کے علاقوں میں شامل ہوانے والے علاقوں کے وڈیروں، گدی نشینوں اور سیاستدانوں نے جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہونا شروع کر دیا تھا۔ مقصود محض اقتدار میں حصہ حاصل کرنا تھا۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔

آج بھی یہ گروہ جب محسوس کرتے ہیں کہ فلاں پارٹی اقتدار میں آ سکتی ہے تو یہ لوگ اسی جماعت میں شامل ہونے میں ذرا سی دیر بھی نہیں لگاتے۔ ان لوگوں کو پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ ایک آمر کی حکومت ہو یا دیگر کسی بھی سیاسی جماعت کی۔ یہ لوگ ہمیشہ اقتدار میں رہتے ہیں۔ تو دوستو۔۔ اگلی واری۔۔۔ فیر زرداری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments