25  جولائی کے انتخابات جمہوریت اور آمریت میں ریفرنڈم ہوں گے


پاکستان میں ایک اور وزیر اعظم کو نشان عبرت بنانے کا اہتمام کیا جا چکا ہے۔ گو کہ نواز شریف کے اس دعوے کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے کہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پچیس جولائی کو ہونے والے انتخابات کریں گے۔ یہ بیانیہ خواہ ملک کے معروضی حالات کے حوالے سے کسی قدر باغیانہ یا حقیقت پسندانہ ہی کیوں نہ ہو اور عدالتی نظام کے ذریعے سیاسی لیڈروں کو سزائیں دلوا کر مطعون کرنے کی خواہ کتنی ہی مذموم روایت اس ملک میں موجود نہ رہی ہو ۔۔۔ اس کے باوجود کسی بھی سیاسی لیڈر کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جرم کی تحقیقات کا کام متعلقہ اداروں یعنی پولیس، ایف آئی اے یا نیب وغیرہ کو ہی کرنا ہوتا ہے کیوں کہ ریاست اور اس کا نظام ان اداروں کو اسی مقصد کے لئے استوار کرتا ہے۔ اسی طرح ان تحقیقات کی بنیاد پر عدالتوں کو ہی سزا دینے یا بری کرنے کا فریضہ انجام دینا پڑتا ہے۔

جس طرح کوئی شخص مجمع جمع کر کے اور جلسہ منعقد کرکے اسے عوام کی رائے کا اظہار قرار نہیں دے سکتا، اسی طرح کوئی بھی لیڈر خواہ ملک کے نظام میں اس کے ساتھ کتنی ہی زیادتی کیوں نہ ہوئی ہو، یہ کہہ کر عدالتی طریقہ کار ، ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا کہ اس کے خلاف الزامات کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہو گا۔ یہ سیاسی ہتھکنڈے پاکستان جیسے ملکوں میں عام طور سے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اب ان کو مسترد کرنے اور نظام قانون کو انتقام کی بجائے انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں تبدیل کرنے کا کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے سب سیاسی لیڈر بلا تخصیص اس اصول کو تسلیم کریں کہ ملکی نظام میں اگر کچھ کوتاہیاں ہیں تو انہیں درست کرنے کی ذمہ داری بھی انہی لیڈروں پر عائد ہوتی ہے جو اسی نظام کے تحت اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نواز شریف کے خلاف عدالتی نظام کو ہتھیار بنا کر ملک میں جمہوری طریقہ کار اور اداروں کی خود مختاری کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے ، اس پر بات کرنے اور اسے مسترد کرنے کے لئے یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ نواز شریف یا جو لیڈر بھی جمہوریت کی علامت بننا چاہتا ہے اور جمہوری عمل میں اداروں ، خفیہ ہاتھوں ، جرنیلوں یا ججوں کی مداخلت کو روکنے کی خواہش رکھتا ہے، وہ کھل کر بات کرے اور نعرے لگانے اور سوال اٹھانے کی بجائے، ان سوالوں کا جواب فراہم کرے۔ میاں نواز شریف طویل عرصہ تک مختلف حیثتوں میں شریک اقتدار رہے ہیں۔ وہ بھی اس نظام کو اس دگرگوں حالت تک پہنچانے کی ذمہ داری سے کلّی طور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے کہ اگر ملک کے عدالتی نظام کو بعض طاقتور طبقوں نے منتخب شخصیتوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے انتقام کی شرمناک مثالیں قائم کی ہیں تو اسی نظام کی یہ کمزوری بھی تسلیم کی جانی چاہئے کہ اس کے تحت کسی سیاست دان کو اس وقت تک سزا بھی نہیں ملتی جب تک وہ نظام چلانے والی قوتوں کا چہیتا رہتا ہے۔ عوامی عدالت کی باتیں صرف اس وقت سننے میں آتی ہیں جب کسی بھی لیڈر کی سرپرستی سے انکار کیا جاتا ہے۔

سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ملک کے عدالتی نظام کو انصاف فراہم کرنے والےاداروں میں تبدیل کرنا ہے تو وہ انصاف سب کے لئے یکساں فراہم ہونا چاہئے اور نظام عدل کو ان طاقتوں کے چنگل سے نجات دلانا ہوگی جو اسے اپنے سیاسی یا ادارہ جاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح اس میں اتنی قوت، شفافیت اور صلاحیت بھی ہونی چاہئے کہ ہر جرم اور غلط کاری کی گرفت ہو سکے اور جرم میں ملوث شخص خواہ کتنا ہی با اثر اور طاقتور ہی کیوں نہ ہو، وہ قانون کے مطابق اپنے اعمال کا جوابدہ ہو۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ملنے والی سزا کے خلاف اسی لئے بھی احتجاج نوٹ کروایا جا رہا ہے کہ یہ سزائیں نہ صرف ناقص قانونی فہم کی آئینہ دار ہیں بلکہ قبل از وقت ہی یہ واضح کردیا گیا تھا کہ ملک کا ’نظام‘ اپنے سابق وزیر اعظم کے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہے۔ یہ فیصلہ اس اصول کا شاہکار نہیں ہے کہ ’قانون سب کے لئے برابر ہے‘ بلکہ اس حقیقت کی بد تر مثال ہے کہ ملک کے نظام کو ایک خاص ڈھب سے چند مخصوص اصولوں پر چلانے کی خواہش رکھنے والی قوتیں اب تک اپنا طریقہ اور رویہ تبدیل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ سچ بھی اظہر من الشمس ہے کہ اگر 70 سال کے دوران ملک کی اسٹبلشمنٹ نے اپنا وطیرہ تبدیل نہیں کیا تو سیاست دانوں نے بھی اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

 اس وقت بھی ملک میں اسٹبلشمنٹ کی زور زبردستی کی پالیسی کے خلاف صرف عوامی سطح پر نفرت اور احتجاج موجود ہے، سیاست دان تو کسی نہ کسی طرح مفاہمت کرنے اور مل جل کر چلنے کے طریقے پر ہی عمل کرتے ہیں۔ اس کی بدترین مثال چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف ہیں جو اپنے لیڈر کے خلاف بے بنیاد انتقامی کارروائی شروع ہونے کے بعد کھل کر ان کا دست و بازو بننے کی بجائے، مفاہمت کرنے اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کرراستہ نکالنے کا مؤقف اختیار کئے ہوئے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے ’جیپ‘ کےنشان پر انتخاب لڑنے کا اعلان کر کے اپنے ’عوامی سیاسی رویہ‘ اور ذاتی حمیت کا مظاہرہ کیا ہے تو شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر انٹرویو دیتے ہوئے قومی حکومت بنانے کا عندیہ دے کر سب اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنے کی بات تسلسل سے کی ہے۔ پوچھا جانا چاہئے کہ جمہوریت میں عوام سے زیادہ یا ان کے علاوہ کون اسٹیک ہولڈر ہو سکتا ہے۔ انتخاب میں ووٹ ملنے کے بعد شہباز شریف کن اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وہ اختیار بانٹنا چاہتے ہیں جو عوام کسی سیاسی جماعت کو معاملات چلانے کے لئے عطا کرتے ہیں۔ شہباز شریف کی مجبوری نواز شریف کا بھائی ہونے کے علاوہ یہ سچائی بھی ہے کہ اگر انہیں تن تنہا پارٹی کی انتخابی مہم چلانا پڑی تو وہ شاید ان حلقوں سے بھی انتخاب نہ جیت سکیں جہاں سے وہ انتخابات میں طبع آزمائی کررہے ہیں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2766 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali